کشتیوں میں کیوں مرتے ہیں؟

حاجی غلام رسول کی کہانی پاکستان کے ہر بے روزگار کے لیے ہدایت ہے‘ حاجی صاحب کا تعلق سکردو کے آخری ٹاؤن اسکولی کے ساتھ ہے‘ اسکولی کے ٹو جاتے ہوئے آخری پڑاؤ ہے‘ اس کے بعد آٹھ دن کی پیدل مسافت کے بعد بیس کیمپ آتا ہے۔

غلام رسول کا خاندان پورٹر تھا‘ یہ لوگ مہم جوؤں کا سامان اٹھا کر بیس کیمپ تک پہنچاتے تھے‘ یہ بھی لڑکپن میں پورٹر بن گئے اور مہم جوؤں کا سامان اٹھا کر بیس کیمپ تک پہنچانے لگے‘ فطرتاً خود دار‘ عاجز اور محنتی تھے‘ مہم جوؤں سے مزدوری کے سوا کچھ وصول نہیں کرتے تھے‘ یہ جم کر محنت کرتے رہے اوریوں پورٹر سے گائیڈ اور گائیڈ سے انتہائی بلند علاقوں کے گائیڈ بن گئے۔

براڈ پیک بھی سر کی اور جی ٹو (Gasherbrum II) بھی‘ یہ2000میں جرمن مہم جوؤں کے ساتھ سنو لیک کی طرف گئے‘ ٹیم میں ایک جرمن خاتون بھی تھی‘ وہ ان کی عاجزی‘ محنت‘ لگن اور خود داری سے بہت متاثر ہوئی چناں چہ اس نے انھیں شادی کی آفر کر دی‘ حاجی صاحب نے تین شرطیں رکھ دیں‘ ایک نکاح اسلامی طریقے سے ہو گا‘ دوسرا میں جرمنی شفٹ نہیں ہوں گا‘ اپنے گاؤں میں رہوں گا اور تیسرا خاتون اسکولی کے بچوں کے لیے ویلفیئر کا کام کرے گی‘ خاتون نے تینوں شرطیں مان لیں اور دونوں کا نکاح ہو گیا۔

حاجی صاحب خاتون کے ساتھ جرمنی گئے اور چند ماہ بعد واپس آ گئے‘ خاتون نے رقم بھجوائی اور غلام رسول نے سب سے پہلے اسکولی میں چھوٹی سی ڈسپنسری بنالی‘ اس کے بعد انھوں نے سکردو میں اسکولی کی بچیوں کے لیے ہاسٹل بنایا‘ پھر لڑکوں کے لیے بھی ہاسٹل بنایا گیا اور اب حاجی صاحب اور ان کی بیگم نے اسلام آباد میں بھی ہاسٹل بنا لیا ہے‘ اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے اسکولی میں پبلک اسکول کی عمارت بھی کھڑی کر دی ہے‘ سوال یہ ہے حاجی صاحب نے ہاسٹل کیوں بنائے؟

ان کا جواب تھا اسکولی کے والدین رہائش کا بندوبست نہ ہونے کی وجہ سے اپنے بچوں اور بچیوں کو تعلیم کے لیے سکردو نہیں بھجواتے تھے‘ میں نے ہاسٹل بنا دیے جس کے بعد اسکولی کے بچے تعلیم حاصل کرنے لگے‘ اسلام آباد کا ہاسٹل بھی اعلیٰ تعلیم کے متمنی بچوں اور بچیوں کے لیے ہے‘ میرے علاقے کے بچے اسلام آباد کی یونیورسٹیوں میں داخلہ لیتے ہیں اور میں انھیں ہاسٹل کی سہولت دے دیتا ہوں‘ حاجی صاحب چٹے ان پڑھ ہیں‘ یہ فون میں نمبر بھی سیو نہیں کر سکتے لیکن اس شخص نے اپنا پورا علاقہ بدل کررکھ دیا‘ یہ مجھ سے یاک ہوٹل میں ملنے آئے اور میں عقیدت کے ساتھ ان کی گفتگو سن رہا تھا تو عین اس وقت یونان میں کشتی ڈوبنے کی خبریں آ رہی تھیں۔

انٹرنیشنل میڈیا دعویٰ کر رہا تھا کشتی میں چار سو پاکستانی سوار تھے‘ ان میں سے صرف 12زندہ بچے جب کہ باقی ڈوب کر مر گئے‘ وہ چار سو پاکستانی ایک طرف تھے اور حاجی غلام رسول دوسری طرف تھے‘ آخر یہ شخص بھی پاکستانی ہے‘ اس کے پاس بھی تعلیم نہیں اور یہ بھی اپنے خاندان کو خوش حال زندگی دینا چاہتا تھا‘ اس نے یہ سب کچھ کیسے کر لیا‘ اس نے اپنے ساتھ ساتھ اپنے پورے خاندان کی زندگی کیسے بدل لی؟ یہ ایک ارب روپے کا سوال ہے۔

ہمیں یہ ماننا ہو گا پاکستان میں غربت بھی ہے‘ بے روزگاری بھی اور لاقانونیت بھی اور ہمارے ملک میں سسٹم بھی انتہائی کم زور ہے لیکن ہمیں یہ بھی ماننا ہوگا اس ملک میں مواقع کی کمی نہیں‘ یہ ملک ابھی زیر تعمیر ہے‘ ہم نے 75 برسوں میں صرف چار شہروں میں میٹروز چلائی ہیں اور ملک کو ابھی چائے کے کپ سے ہوائی جہاز تک ہر چیز چاہیے‘ ملک میں سروسز کا سیکٹر ابھی سرے سے ڈویلپ نہیں ہوا۔

ملک میں ایک طرف کروڑوں لوگ بے روزگار ہیں اور دوسری طرف آپ کو اچھا ڈرائیور‘ کک‘ مالی‘ مستری‘ پینٹر‘ پلمبر‘ الیکٹریشن‘ ویٹر‘ کلرک‘ ہیلپر‘ چوکی دار‘ ریسپشنسٹ اور ٹیچر نہیں ملتا‘ پورا ملک بچوں کے لیے ٹیوٹر تلاش کر رہا ہے لہٰذا ملک میں مواقع کا انبار لگا ہوا ہے‘ اسلام آباد‘ فیصل آباد‘ سیالکوٹ‘ لاہور اور کراچی کا ہر دوسرا شخص سیلف میڈ ہے اور یہ چند ہی برسوں میں صفر سے ارب روپے تک پہنچا۔

میں اسلام آباد میں چند پلمبرز‘ الیکٹریشنز اور پینٹرز کو جانتا ہوں‘یہ لینڈ کروزر پر آتے ہیں اور ان کی دس دس ٹیمیں کام کر پر لگی ہیں اور لوگ ان کے پیچھے بھاگ رہے ہیں‘ لوگ صرف کوئلہ سپلائی کر کے کروڑوں روپے کما رہے ہیں‘ راولپنڈی میں ویسپا اسکوٹرز کاایک مکینک ہے‘ یہ لاکھوں روپے کما رہا ہے جب کہ نوجوان اس زیر تعمیر ملک کو چھوڑ کر اس مکمل یورپ میں جانا چاہتے ہیں جس میں فرش صاف کرنے کے لیے بھی تعلیم اور تربیت چاہیے‘ جس میں مزدوری کے لیے بھی ٹریننگ درکار ہوتی ہے اور آپ اگر ایک بار وہاں چلے گئے تو پھر اس وقت تک واپس نہیں آ سکتے جب تک آپ کے کاغذات مکمل نہیں ہوتے اور کاغذات کی تکمیل کے لیے زبان‘ ورک پرمٹ اور ٹریننگ چاہیے لہٰذا یہ لوگ یورپ میں سسکتے رہتے ہیں اور ان کے والدین بیٹے یا خاوند کی راہ دیکھتے دیکھتے مر کھپ جاتے ہیں‘ مجھے یورپ میں چند ڈیروں پر جانے کا اتفاق ہوا۔

آپ یقین کریں ان کی کنڈیشن ناقابل بیان ہوتی ہے‘ ایک ایک کمرے میں دس دس لوگ رہتے تھے‘ فرش پر سوتے تھے اور پولیس کے خوف سے علاج کے لیے ڈاکٹر کے پاس بھی نہیں جاتے تھے‘ یہ لوگ کاغذات کے چکر میں تیسرے درجے کی خواتین سے شادی بھی کر لیتے ہیں اور ان کے ہاتھوں ٹھیک ٹھاک ذلیل ہوتے ہیں‘ ان خواتین میں سے ان کی اولاد بھی پیدا ہو جاتی ہے اور وہ اولاد بھی خوف ناک بحران پیدا کر دیتی ہے اور اگر اس ساری ذلت کے بعد ان لوگوں کو کاغذات مل بھی جائیں تو بھی یہ لوگ اس وقت تک اس قدر ذہنی‘ نفسیاتی‘ روحانی اور جسمانی اذیتوں سے گزر چکے ہوتے ہیں کہ زندگی ان کے لیے بے معنی ہو چکی ہوتی ہے اور یہ نصیب بھی صرف ایک فیصد لوگوں کو نصیب ہوتا ہے جب کہ باقی 99 فیصد بارڈرز‘ کشتیوں اور کنٹینروں میں فوت ہو جاتے ہیں اور یہ موت یہ لوگ پچیس تیس لاکھ روپے میں خریدتے ہیں۔

یہ ٹریکٹر‘ زمینیں‘ زیورات اور دکانیں بیچ کر ایجنٹوں کو رقم دیتے ہیں‘ ان کی رقمیں اول ایجنٹ کھا جاتے ہیں یا پھر ان کے بچوں کو لیبیا‘ ترکی اور لاطینی امریکا کے جنگلوں اور صحراؤں میں چھوڑ آتے ہیں اور یہ اگر بارڈر پولیس سے بچ جائیں تو یہ بھوک اور پیاس سے بلک بلک کر مر جاتے ہیں۔

میں حیران ہوں پاکستانی نوجوان موت کا یہ راستہ کیوں چنتے ہیں‘ یہ اگر پاکستان میں 20 یا 30 لاکھ روپے سے کوئی کاروبار شروع کر لیں تو یہ دنوں میں کروڑ پتی بھی ہو جائیں گے اور عزت سے ویزہ لے کر پوری دنیا میں گھومنے کے قابل بھی ہو جائیں گے‘ ان لوگوں کو یہ راستے نظر کیوں نہیں آتے؟ دوسرا یہ اگر ہر صورت یورپ جانا چاہتے ہیں تو اس کے لیے بھی جائز اور سیدھے راستے موجود ہیں‘ یہ لوگ ملک سلیکٹ کریں اور اس ملک کی زبان سیکھنا شروع کر دیں‘ یہ سہولت آن لائین بھی موجود ہے۔

آج گاؤں کا لڑکا بھی موبائل فون کے ذریعے کسی بھی ملک کی زبان سیکھ سکتا ہے‘ یہ اس کے بعد وہ کام سیکھ لے جس کی اس ملک میں ضرورت ہے مثلاً اسپین اور اٹلی میں کھیتی باڑی کے ورکرز کی بے تحاشا ضرورت ہے‘ یہ نوجوان زرعی اداروں اور یونیورسٹیوں سے ٹریننگ لے سکتے ہیں‘ اس ٹریننگ کے لیے زیادہ پڑھا لکھا ہونا ضروری نہیں ہوتا‘ یہ ان پڑھ ہونے کے باوجود ٹریننگ لے سکتے ہیں اور یہ اس کے بعد اس رقم کا صرف 20 فیصد بیرون ملک وکیل یا ریکروٹمنٹ کو دے کر ورک ویزہ حاصل کر سکتے ہیں اور باقاعدہ جہاز میں بیٹھ کر باہر جا سکتے ہیں۔

یہ طریقہ تھوڑا سا مشکل اور لمبا ہے لیکن اس میں جان کا خطرہ بھی نہیں اور رقم بھی ضایع نہیں ہوتی اور آپ لوگ یہ اپنے روزانہ کے کاموں یا جابز کے ساتھ ساتھ بھی کر سکتے ہیں مگر شاید ہم مجموعی طور پر ایک بے وقوف قوم ہیں‘ ہم بھیڑ چال میں کنویں میں چھلانگ لگانے والے لوگ ہیں لہٰذا ہر ایک دو ماہ بعد کشتی ڈوبنے کی خبر ملتی ہے‘ ہم اس پر روتے دھوتے ہیں اور پھر اگلی کشتی کا انتظار شروع کر دیتے ہیں‘ میری حکومت بالخصوص اوورسیز منسٹری سے درخواست ہے آپ ملک بھر میں اوورسیز ایمپلائمنٹ پر سیمینار کریں اور لوگوں کو بیرون ملک جانے اور ملازمت کرنے کا طریقہ بتائیں‘ اس سے لاکھوں جانیں بھی بچ جائیں گی اور ملک میں خوش حالی بھی آئے گی۔

میں سکردو کی طرف واپس آتا ہوں‘ ہم سکردو میں پہلے دن شگر گئے‘ ہمارا دوسرا دن کچورہ میں گزرا‘ سکردو ائیرپورٹ کی دوسری جانب پہاڑوں کے اندر دو خوب صورت جھیلیں ہیں‘ بالائی جھیل اپر کچورہ جھیل کہلاتی ہے‘ یہ جھیل کچورہ گاؤں میں واقع ہے اور انتہائی خوب صورت ہے‘ وہاں صرف فور بائی فور جیپ جا سکتی ہے‘ راستہ تنگ اور خطرناک ہے لیکن آپ جب جھیل کے کنارے پہنچ جاتے ہیں تو ساری تھکان دور ہو جاتی ہے‘ جھیل کے راستے میں چائے خانے اور چھوٹے چھوٹے ہوٹلز ہیں‘ کچورہ کی چیری‘ شہتوت اور خوبانیاں بہت مشہور ہیں‘ آپ کو یہ قدم قدم پر مل جاتی ہیں۔

جھیل میں درجن کے قریب ندیاں اور نالے گرتے ہیں‘ یہ گلیشیئرز کا ٹھنڈا پانی جھیل تک پہنچاتے ہیں‘ آپ کو پوری وادی میں ندیوں اور نالوں کا جلترنگ سنائی دیتا ہے‘ وہاں درختوں کی چھاؤں بھی ہے‘ لوئر کچورہ اس کے بعد آتی ہے اور اس میں اپر کچورہ کا پانی گرتا ہے‘ لوئر کچورہ کے ساتھ دنیا کا مشہور ہوٹل شنگریلا ہے‘ یہ ہوٹل ہٹس کی شکل میں جھیل کے ساتھ ساتھ پھیلا ہوا ہے اور یہ اپنے سیب کے درختوں‘ سبزہ زاروں اور خوب صورتی کی وجہ سے پوری دنیا میں مشہور ہے‘ بلتستان کیا ہے؟ ٰآپ جب تک اسے دیکھیں گے نہیں یہ آپ کو اس وقت تک سمجھ نہیں آئے گا۔