اعلیٰ درجے کا ایک مہذب انسان اور رائٹر

جب میں بچہ تھا تو لندن میں ایک انگریز سے میری ملاقات ہوئی وہی ادب آداب اور سوٹ ٹائی یہ انگریز ایلیٹ کلاس کا لگتا تھا ۔وہ گاڑی میں بیٹھ رہے تھے تو پتہ نہیں میرا کیوں جی چاہا کہ میں ان سے بات کروں۔ میں ان کےپاس گیا ۔میں نے کہا انکل !میں پاکستانی ہوں آپ کبھی پاکستان آئے ہیں۔ انہوں نے اردو میں جواب دیا کہ بیٹا میں پاکستانی ہی ہوں اور میرا نام حسین شیرازی ہے ۔اس کے بعد ظاہر ہے کہ میرے ہاتھوں کےطوطے اڑ گئے، یہ بات تو میں نے تمثیل کے طور پر پیش کی ہے ورنہ حسین شیرازی کو میں پاکستان میں ہی ملا ہوں ،ملتا ہوں ،ملتا رہوں گا۔ ان سے ملنا ایک خوشگوار تجربہ ہے حلیہ ،وضع قطع انداز اور ادب آداب سب انگریزوں جیسے اور اعمال سچے مسلمانوں جیسے !پہلے صرف ان کی کتابوں سے دوستی تھی اب ان سے محبت ہو گئی ہے۔بہرحال ان سے ملتے ملتے پھر میں نے ان کی کتابیں زیادہزور وشور سے پڑھنا شروع کر دیں۔ حسین شیرازی صاحب کی نئی کتاب ’’آٹھواں عجوبہ ‘‘ ہے حسین شیرازی ایک اعلیٰ درجے کےنثر نگار اور ایک اعلیٰ درجے کے طنز نگار ہیں ۔میں ان سے آپ کی ملاقات ان کی تحریروں کے حوالے سے کراتا ہوں ۔ذیل میں ان کی نئی کتاب کے کچھ اقتباسات پیش ہیں۔ بہرحال حسین شیرازی صاحب کو دل کی گہرائیوں سے مبارکبادکہ انہوں نے اپنے قارئین کو ایک اور اعلیٰ درجے کی کتاب پڑھنے کو دی ہے ۔

ہر دھندے کے اپنے اصول بھی ہوتے ہیں ایک ماڈل گرل کا عدالت میں طلاق کا مقدمہ چل رہا تھا وکیل نے کہا کہ نکاح نامے میں حق مہر دو لاکھ روپے صرف ہندسوں میں لکھا ہوا تھا میں نے ایک صفر بڑھا کر 20لاکھ روپے کر دیا ہے اس پر ماڈل گرل کی ماں بولی ’’نہ نہ وکیل صاحب ! اس طرح کی کمینگی تو شریف لوگ کرتے ہیں ۔ہم نہیں ‘‘دولت کے ڈٹرجنٹ یا صابن سے انسان اپنے ماضی کی کالک کو بھی دھو سکتا ہے۔ ڈائنامائٹ کے موجد الفریڈنوبل کو اس کی زندگی میں لوگ ’’ملک الموت‘‘ اور موت کا سوداگر کہتے تھے کیونکہ اس وقت تک ڈائنامائٹ دنیا میں تباہی کا سب سے بڑا ہتھیار تھا۔ اپنی اس بدنامی کو چھپانے کےلئے اس نے نوبل انعامات کا ادارہ بنایا اور آج دنیا ہر سال اس ’’موت کے سوداگر ‘‘ کو ایک نیک نام انسان کے طور پر یاد کرتی ہے یہ انعام ’’امن‘‘ کی کوششوں کے لئے بھی دیا جاتا ہے !

ہمارے ایک بھتیجے پولیس میں اعلیٰ عہدے پر فائز ہیں انہوں نے بتایا کہ ایک خود کش حملہ آور واردات سے عین قبل گرفتار ہوگیا تلاشی پر معلوم ہوا کہ اس نے خودکش جیکٹ کے ساتھ ساتھ کرکٹ کا فولادی گارڈ بھی پہنا ہوا تھا۔کیوں آپ سوچیے!

ہمارے لا کالج کے ایک ہم جماعت ایک بڑی سیاسی جماعت کے سیکرٹری جنرل بھی رہے۔ دنیا کی تاریخ میں رومن ایمپائر ایک منفرد مقام کی حامل ہے۔ اس کی عظمت میں اس کے اچھے حکمرانوں نے بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔شہنشاہ آگسٹس سیزر (14AD)نے کہا کہ مجھے مٹی کا بنا روم ملا تھا لیکن میں سنگ مرمر کا بنا روم چھوڑ کر جا رہا ہوں ! صدافسوس !!!کہ ہمارے بیشتر حکمرانوں کی کارکردگی اس کے بالکل الٹ ہے !!!

اگر کوئی بیج تنا ور درخت بننے کی کوشش کر ےتو اسے کاٹ کر پھینک دیا جاتا ہے، وزیر اعظم جونیجو کی برطرفی پر ان کے روحانی پیشوا پیر پگاڑا سے پوچھا گیا کہ جونیجو کے ساتھ کیا ہوا؟ انہوں نے جواب دیا کہ وہ خود کو وزیر اعظم سمجھنے لگ گیا تھا ! کسی ستم ظریف نے تجویز دی ہے کہ ’’پراپرٹی‘‘ کو پرائمری تعلیم کے نصاب میں شامل کر دینا چاہئے !اونٹ کی طرح اس معاشرے کی کوئی بھی کل سیدھی نہیں ہے۔ لندن میں مقیم کسی پاکستانی کو وطن کا درد جاگا تو وہ اپنے ایک بیٹے کو یہاں کسی مکتب میں داخل کروانے لے آیا ۔اس نے ادارے کے مہتمم سے اپنے اس بچے کو مار پیٹ اور بطور خاص دوسری مشہور مشکلات سے دور رکھنے کی استدعا کی۔ ان کا جواب تھا کہ دیکھو بھائی !ہم نے تو جیسے پڑھا ہے ویسے ہی پڑھائیں گے منظور نہیں توصاحبزادے کو واپس لے جائیں !!!

ہمارے ایک دوست امریکی شہر ٹلسا میں رہتے ہیں، وہاں کسی پاکستانی نے کسی گورے سے قرض کی رقم وصول کرنی تھی، امریکی اس بارے میں لیت و لعل سے کام لے رہا تھا۔ اس کے گردونواح میں رہنے والوں سے تحقیق کی گئی تو پتہ چلا کہ وہ اتوار کا پورا دن گرجا گھر میں گزارتا ہے، قرض خواہ پادری سے ملا اور اس سے مدد کی درخواست کی۔ اگلے ہی دن مقروض ادھار واپس کرنے آیا تو پاکستانی نے اسے پادری کے اس منتر کی تفصیلات پوچھیں جس کا اس پر اتنی سرعت سےاثر ہو گیا تھا۔ امریکی نے جواب دیا ’’کوئی خاص بات نہیں فادر نےصرف یہ کہا کہ ولیم تم کب سے مسلمان ہو گئے ہو؟‘‘ آپ دنیا کے امیر ترین لوگوں سے پوچھیں کہ کیا وہ امریکی صدر کے ساتھ اپنی پوزیشن بدلنا چاہتے ہیں تو جواب یقیناً ہاں میں ہوگا صدر نکسن نے واٹر گیٹ سکینڈل کے بعد ایک انٹرویو میں کہا کہ اپنے عہد صدارت کے دوران ایک رات جب وہ سونے لگا تو اس نے چاہا بلکہ دعا کی وہ صبح زندہ نہ اٹھے۔

ایک رئیس نے کسی سوالی کی خیرات کی درخواست پر کہا کہ وہ اپنی مونچھوں پر ہاتھ پھیرے گا جتنی اشرفیاں سائل کے مقدر میں ہوں گی اتنے بال اس کے ہاتھ میں آجائیں گے۔ جب اس عمل سے ہاتھ میں کچھ نہ آیا تو نواب بولا ’’خالی ہاتھ دیکھ لو۔ تمہارے نصیب میں ہی کچھ نہیں ہے اس پر سائل پکارا ’’جہاں پناہ میری قسمت دیکھنی ہے تو پھر مونچھیں آپ کی لیکن ہاتھ میرا ہونا چاہئے‘‘دنیا کے کئی منصفانہ فلسفے مظلوم کو ظالم سے اپنے حقوق حاصل کرنے کےلئے یہی طریقہ کار اختیار کرنے کی اجازت دیتے ہیں ۔

ہمارے حالات کی عکاسی باپ بیٹے کے اس مکالمے سے بھی ہوتی ہے۔

بیٹا:آپ نے امتحان کے بعد سائیکل لےکر دینے کا وعدہ کیا تھا ۔

باپ:وعدہ کامیابی سے منسلک تھا تم فیل ہو گئے ہو ویسے امتحان کے دنوں میں تم کرتے کیا رہے۔

بیٹا:سائیکل چلانا سیکھتا رہا ہوں !!!

سچ تو یہ ہے کہ ہماری قوم کے بیشتر افراد یہی سائیکل چلانا سیکھ رہے ہیں ورنہ 2020میں کراچی اور لاہور کے کچرا اٹھانے کے ٹھیکے غیر ملکی کمپنیوں کےپاس ہوتے ۔(جاری ہے )