امجد لمبی نیند سو رہا ہے!

امجد اسلام کی شخصیت میں ایک اہم بات یہ تھی کہ وہ بے حد محنتی تھا، محفل سازی کے باوجود وہ اپنے اصل کام سے غافل نہیں رہتا تھا، مسلسل شاعری کرتا تھا، جرائد کی فرمائش پر انہیں اپنی تخلیقات باقاعدگی سے ارسال کرتا تھا۔کتابیں پڑھتا تھا، ایک اچھا شوہر تھا، ہماری فردوس بھابی کو شاید ہی کبھی اس نے شکایت کا موقع دیا ہو،اس نے خود کو صرف شاعری تک محدود نہیں رکھا بلکہ تراجم کئے، تنقیدی کالم لکھے، تراجم کے حوالے سے ایک مزے کی بات مجھے کبھی نہیں بھولتی، اس نے فلسطینی شعراء کے اردو تراجم کئے، ظاہر ہے اسے عربی نہیں آتی تھی، سید محمد کاظم عربی کے بہت بڑے عالم ہیں، امجد نے ظاہر ہے پہلے ان سے نثری تراجم کرائے ہوں گے اور پھر انہیں منظوم شکل دی ہوگی مگر دیباچے میں اس نے سید محمد کاظم کے تعاون کا کھل کر اعتراف کرنے کی بجائےان کا سرسری سا ذکر کیا۔ میں نے اسے چھیڑنے کی غرض سے کہا یار مجھے علم نہیں تھا کہ تمہیں عربی پر اس درجہ دسترس حاصل ہے۔ انکساری سے بولا بس یار زیادہ تو نہیں مگر تھوڑی بہت عربی جانتا ہوں، اس پر میری ہنسی نکل گئی، میں نے کہا ’’ہاں یہ تو ہے کلمہ طیبہ کا ترجمہ تو تم بآسانی کرسکتے ہو‘‘۔ اس پر اس نے قہقہہ لگایا اور کہا ’’بکواس نہ کرو‘‘۔

امجد حق حلال کی کمائی کے سبب خاصا خوشحال تھا مگر اہل خانہ پر جی کھول کر خرچ کرنے کے باوجود اپنی ذات پر بہت کم خرچ کرتا تھا، میں نے اسے کبھی مہنگے کپڑے پہنے نہیں دیکھا، دوستوں کے ساتھ مہنگے ہوٹلوں میںگلچھرے اڑاتے نہیں پایا۔ بیرون ملک اس نےاپنے لئے کبھی شاپنگ نہیں کی۔ سب سے بڑی بات یہ کہ وہ اپنے حال پرخوش تھا، ہم میں سے کتنے لوگ ہیں جو سب کچھ حاصل کرنے کے باوجود ہروقت شکوہ کناں رہتے ہیں۔

امجد کی اور میری جوڑی پاک و ہند میں مشہور تھی، لوگ ہماری دوستی پر رشک کرتے تھے، تاہم کچھ بدنظروں کی نظر لگنے سے ہم چھ سات سال تک ایک دوسرے سے کھنچے کھنچے سے رہے، تاہم ٹیلیفون پر رابطہ مسلسل رہا۔ یہ درمیانی عرصہ نیچرل تھا۔ اتنی لمبی رفاقت میں جدائی کے کچھ لمحات تو آتے ہی ہیں، بلکہ ہمارے درمیان جملہ بازی کا سلسلہ کبھی نہ تھما۔ تقریباً پندرہ روز قبل ہمارے بے پناہ محبت کرنے والے دوست عرفان جاویدجو بہت اعلیٰ درجے کا رائٹر ہے، نے اپنے گھر پر دوستوں کو لنچ پر مدعو کیا، ظاہرہے اس میں، میں اور امجد بھی مدعو تھے۔ گفتگو کے دوران امجد نے بتایا کہ مصر میں ایک لڑکی نے اس پر تھسیز لکھا ہے، میں نے کہا جامعہ ازہر مصر میںبھی ایک لڑکی میری مزاح نگاری پر پی ایچ ڈی کر رہی ہے، جس پر امجد کی رگ ظرافت پھڑکی اور ہنستے ہوئےبولا ’’مگر میرے والی لڑکی بہتر ہے‘‘۔ میں اور امجد جس محفل میں ہوتے اسے بور نہیں ہونے دیتے تھے، جب دیکھتے کہ محفل پر خشکی طاری ہو رہی ہے تو ایک دوسرے کے ساتھ جملہ بازی شروع کردیتے مگر کسی تیسرے کو اپنے جملوں کا نشانہ نہیں بناتے تھے۔ کراچی میں ایک یادگارِ زمانہ شخصیت لطف اللہ خان تھے، انہوں نے ایک اتنا عظیم کام کیا جو رہتی دنیا تک یاد رہے گا۔ انہوں نے پاک و ہند کی نامور شخصیات کی آوازیں یکجا کیں، ان کے اس کام کو اب ایک میوزیم کی شکل دے دی گئی ہے، آپ کسی بھی نامور شخصیت کی باتیں اس کی اپنی آواز میں سننا چاہیں، ایک بٹن دبائیں اور ان کی گفتگو سنیں، یہ اعزاز مجھے اور امجد کو بھی حاصل ہے۔ انہوں نے ہم دونوں کو اکٹھے بٹھایا اور ہماری باہمی گفتگو ریکارڈ کی، چنانچہ جنہوں نے امجد کو کبھی نہیں سنا وہ اس کی وفات کے بعد بھی اسے سن سکتے ہیں۔

امجد اسلام امجد پر مجھے حیرت ہوتی تھی کہ آخری لمحہ میں بہت کمزور ہونے کے باوجود وہ مشاعروں میں آخر تک بیٹھتے تھے، جبکہ میں کوئی بہانہ بنا کر مشاعرے کے آغاز میں اپنا کلام سنا کر وہاں سے کھسک جاتا تھا، دو تین ماہ پیشتر امریکہ میں اپنی نقاہت کی وجہ سے وہ دو تین بار باتھ روم میں گر پڑے مگر اس کے باوجود مشاعروں میں وہ آخر تک بیٹھتے تھے۔ یہ صفت مزاح گوئی میں سب سے بڑے نام انور مسعود میں بھی ہے۔ امجد اور انور دونوں رشتے دار بھی ہیں اور دونوں میں ایک اور قدر مشترک شوگر کا مرض بھی تھا۔ میں اس وقت بہت انجوائے کرتا تھا جب کسی کھانے میں یہ دونوں سویٹ ڈش کو حسرت بھری نظروں سے دیکھتے تھے۔پھر اچانک امجد اس سویٹ ڈش کو چکھتا اور پھر انور سے کہتا یار میں نے چکھ کر دیکھی ہے، بہت کم میٹھی ہے، ہم کھا سکتے ہیں، جس پر انور مسعود ہاتھ آگے بڑھاتا اور بسم اللہ پڑھ کر اس پر پل پڑتا اور اس محفل میں یہ دونوں ڈائبیٹک اس حوالے سے کسی سے پیچھے نہیں رہتے تھے۔ بائی دی وے امجد کی شوگر کی ایک وجہ تو میں جانتا ہوں اور وہ یہ کہ جوانی میں جب ہم دوسرے شہروں کے مشاعروں میں ویگنوں پر جاتے تو رستے میں جہاں رکتے امجد وہاں دس بارہ کولڈ ڈرنکس ضرور پیتا تھا۔ یہ عجیب طرح کی پیاس تھی۔ اور ہاں امجد انور کی طرح درویش نہیں تھا جو قسمت میں ہوگا مل جائے گا بلکہ وہ مقاصد کے حصول کے لئے پلاننگ بھی کرتا تھا۔

توفیق بٹ نے امجد اسلام کی وفات پر کالم میں لکھا کہ مجھے پتہ چلا کہ امجد صاحب کی وفات ہارٹ اٹیک سے ہوئی ہے، مگر بعد میں پتہ چلا کہ وہ رات کو سوئے اور پھر اٹھے نہیں۔ توفیق کا آخری جملہ یہ تھا ’’ نیند چھوٹی موت ہے اور موت لمبی نیند ہے‘‘۔