فرشتہ سیرت انسان!

گزشتہ روز ایک دوست کی شادی ہوئی ہے ،دولہا اور دلہن کی عمر میں آدھا آدھا فرق ہے دلہن پچاس سال کی ہے اور دولہا سو سال کا۔ دولہا میرا پرانا دوست ہے ۔میں نے اسے شادی کی مبارک باد دی اور پوچھا شادی تو کرلی ہے کوئی تیاری بھی کی کہ نہیں ،بولا تم مجھے بیوقوف سمجھتے ہو، نیا فرنیچر بنوایا ہے مشینی وہیل چیئر خریدی ہے جو میں خود چلا سکوں گا ،میں اپنی بیوی کو تکلیف نہیں دوں گا۔ میں نے کہا بیوی کو کچھ تکلیف تو بہرحال دینا ہی پڑتی ہے۔ اس نے پوچھا مثلاً ؟میں نے جواب دیا ہزار مسائل ہوتے ہیں تمہیں تو خود بھی اس کا اندازہ ہو گا ،بولا تم مجھے بیوقوف سمجھتے ہو میں نہیں جانتا کہ کیا مسائل ہوتے ہیں، اسے کھانا پکانا ہوتا ہے گھر کی صفائی وغیرہ کرنا ہوتی ہے مگر میں اپنی بیوی کو کوئی بھی تکلیف نہیں ہونے دوںگا ،میں اس کام کیلئے ملازمہ رکھوں گا۔ میں نے عرض کی میرے پیارے دوست یہ تو ٹھیک ہے مگر بیوی کو تکلیف دینا بھی ضروری ہوتا ہے پوچھا کیوں ؟میں نے کہا بیکار انسان کا ذہن شیطان کا کارخانہ ہوتا ہے لہٰذا اسے ہاتھ پر ہاتھ رکھے نہیں بیٹھا رہنا چاہئے۔ دولہا میاں نے کہا میں اس کے یہ نخرے برداشت نہیں کروں گا میں اسے ہاتھ پہ ہاتھ رکھے کبھی بیٹھنے نہیں دوں گا ،میں نے اس کی وجہ پوچھی تو بولا میں نے اس سے شادی اس لئے نہیں کی کہ وہ اپنے ہاتھ پہ ہاتھ رکھے بیٹھی رہے وہ اگر ہاتھ رکھے گی تو میرے ہاتھ پرہاتھ رکھے گی جو میں سہلاتا رہوں گا ،میں نے اسے یہ احساس تو نہیں ہونے دینا کہ اس کی شادی کسی بوڑھے سے ہوئی ہے ۔میں نے کہا شکر ہے تم نے ایک عقل کی بات بھی کی ہے تاہم میرا ایک مشورہ ہے ۔پوچھا وہ کیا ؟میں نے کہا اس کا ہاتھ زیادہ دیر تک نہ مسلنا اس سے کچھ مسائل بھی پیدا ہوسکتے ہیں اس پر نہ اس نے وجہ پوچھی اور نہ میں نے بتائی۔

میں نے پوچھا تم لوگ ہنی مون کے لئے کہاں جا رہے ہو ؟بولا وہ کیا ہوتا ہے اس حوالے سے میری معلومات بہت کم ہیں ،میں نے بتایا کہ پاکستان میں بہت سے خوبصورت مقامات ہیں کسی ایسے ہی مقام پر لے جانابہت روماٹنک ماحول ہوتا ہے اس نے میری تائید ہی نہیں کی ،ہامی بھی بھرلی اور مجھ سے مشورہ بھی کیا کہ کہاں جانا چاہئے ،میں نے کہا جس خوبصورت مقام پر بھی جائو مگر جب اپنے کمرے سے باہر نکلو تو جہاں بہت کم لوگ ہوں وہاں جاکر بیٹھ جانا بیوی کا ہاتھ پکڑ لینا اور رومانوی انداز میں باتیں کرنا اس نے پوچھا صرف باتیں ہی کرنا ہیں نا؟میں نے کہا ہاں وہاں باتیں ہی کرنا ہے اس کے بعد اپنے کمرے میں چلے جانا دولہا نے پوچھا کمرے میں جاکر کیا کرنا ہے ؟میں نے کہا بیڈ میں لیٹ جانا اور کیا کرنا ہے ؟یوں یہ تو ٹھیک ہے مگر یار میں ڈبل بیڈ پر کبھی لیٹا نہیں ہمیشہ سنگل بیڈ پر سوتا ہوں سنگل بیڈ کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ انسان جس طرف سے چاہے اتر سکتا ہے اس پر میں نے پوچھا اگر سنگل بیڈ پر ہی سونا تھا تو سنگل ہی رہنا تھا شادی کیوں کی ؟یہ سن کر وہ کچھ سوچ میں پڑ گیا اور پوچھا ’’ساتھ لیٹ کر میں نے کرنا کیا ہے ؟‘‘میں نے جھلا کر کہا کچھ نہیں صرف یہ کہنا ہے باجی آپ کتنی اچھی ہیں!

یہ سن کر وہ غصے میں آگیا اور کہنے لگا تم مجھے الوکا پٹھا سمجھتے ہو کیا مجھے نہیں پتہ اس موقع پر کیا کرنا ہے؟ میں نے اس کی اس بات پر خوش ہو کر پوچھا اچھا بتائو کیا کروگے ؟’’بولا‘‘ میں اس کے پائوں دبائوں گا باہر سے گھوم کر آئے ہیں وہ تھک گئی ہو گی، یہ سن کر میں نے اسے شاباش دی اور کہا میں تو تمہیں بالکل گھامڑسمجھ بیٹھا تھا مگر تم تو بہت نفسیات دان نکلے ہو ،آغاز ایسے ہی ہونا چاہئے آخر عمر کا فرق بھی تو ہے ،اچھا پھر کیا کرو گے ؟بولا کرنا کیا ہے سارے دن کے تھکے ہوئے ہیں سو جائیں گے اب میں خود کو گدھا سمجھنے لگ گیا تھا میں نے قدرےغصے سے پوچھا ’’تمہاری یہ پہلی شادی ہے ؟‘‘اس پر اس نے لاحول ولا قوۃ پڑھا اور بولا تم مجھے اتنا گائودی سمجھتے ہو میرے یار میں نے گزشتہ ستر برسوں میں پچیس شادیاں کی ہیں اللہ کے فضل سے کروڑ پتی ہوں ہر بیوی کو کئی کئی تولےزیورات ، نہایت قیمتی جوڑے دیئے، اس کے علاوہ ان کی ہر خواہش پوری کی، ان کی خدمت کرتا رہا مگر وہ بہت خاندانی عورتیں تھیں ہر تین چار مہینے بعد وہ مجھے ڈھیروں دعائیں دیتی ہوئی اپنے والدین کے گھر چلی جاتیں جو ان کی شادی کسی غریب غربا خاندان میں کر دیتے۔ ان میں سے کوئی آج بھی سر راہ مل جائے تو بہت احترام سے ملتی ہے اور کہتی ہے آپ جیسا درویش شخص کبھی نہیں دیکھا۔

میرا یہ دوست سچ کہتا ہے اتنے نیک آدمی اب کہاں رہ گئے ہیں فرشتہ سیرت انسانوں کی اب قدر ہی نہیں رہی ۔آخر میں میرے دیرینہ دوست جلیل عالی کی ایک غزل:

زمانہ حیراں ہے کیا کرشمہ دکھا دیا ہے

غنیم کو خود اس کے ہاتھوں ہرا دیا ہے

بدلتا دیکھو گے کل دروبست زندگی کو

سمے کا دھارا اک اور رخ پر بہا دیا ہے

ہمیں یہ دھن ہے کہ کچھ تو دنیا کو دے کے جائیں

گلہ نہیں ہے کہ ہم کو دنیا نے کیا دیا ہے

کسی کی نابودگی نہیں چاہتے سو ہم نے

سدا عدو کو فرار کا راستہ دیا ہے

زوال موسم میں بھی رہے بے مثال ایسے

زمیں یہ کیا کیا معال ممکن بنا دیا ہے

کچھ ایسے برہم ہیں ہم پہ سب صاحبان دنیا

کہ جیسے ہم نے زمیں کو الٹا گھما دیا ہے

نئے دریچے نگاہ میں کھل رہے ہیں عالی

لہو میں اک ہجر تو نے ایسا جگا دیا ہے