بھولے بادشاہ !

آج کے دور میں پتہ نہیں کون لوگ ہیں جنہیں شہنشاہوں کی زندگی پر رشک آتا ہے میں تو ان بے چارے شہنشاہوں کے بارے میں سوچتا ہوں تو ان پر ترس آتا ہے ۔ میں نےلاہور کے شاہی قلعے میں واقع شیش محل کی صورت میں مغل بادشاہ کی قیام گاہ دیکھی ہے جس کمرے کو اس کا بیڈ روم بتایا جاتا ہے وہ کمرہ 12×10سائز کا ہے موصوف نے بڑی عیاشی کی ہو گی تو اس کے دروازوں پر نہایت اعلیٰ درجے کے پردے لٹکائے ہوں گے ،چھت پر قیمتی فانوس ہوں گے، فرش پر نہایت بڑھیا درجے کا قالین بچھا ہو گا اور اس سے زیادہ وہاں کیا ہو گا ؟جبکہ آج کل مڈل کلاس کے لوگ بھی اس سے بہتر زندگی بسر کرتے ہیں بلکہ جو آسائشیں آج کے انسان کو حاصل ہیں ان بےچارے شہنشاہوں کے وہم وگمان میں بھی نہیں ہوں گی، مثلاً بادشاہ سلامت اپنی تمام تر دولت وحشمت کے باوجود ایک فریج خریدنے کی ’’استطاعت‘‘ نہیں رکھتے تھے کیونکہ اس زمانے میں فریج ہوتا ہی نہیں تھا۔ پانچ چھ گھڑوں کے پیندوں میں سوراخ کرکے انہیں اوپر تلے رکھتے تھے اور تب کہیں موصوف کو ٹھنڈے پانی کا ایک گھونٹ میسر آتا تھا۔

مؤرخوں نے ان بادشاہوں کی عیش وعشرت کے بڑے قصے مشہور کر رکھے ہیں مثلاً یہ کہ وہ گانا سنتے تھے، روز رقص دیکھتے تھے حالانکہ ان کے یہ مشاغل اپنے احساس محرومی کو چھپانے کے لئے تھے کیونکہ ان کے پاس ٹیلی وژن نہیں تھا ،وی سی آر نہیں تھا بلکہ ان بے چاروں کے ذہن میں بھی یہ بات نہیں آسکتی تھی کہ اس طرح کی کوئی چیز وجود میں آسکتی ہےجبکہ آج گھر گھر میں وی سی آر اور ٹیلی ویژن ہے اور جس رقص اور موسیقی سے صرف شہنشاہ سلامت لطف اندوز ہوتے تھے وہ آج ایک مزدور تنور پر روٹی کھانے جاتا ہے تو کھانے کے دوران اس رقص اور موسیقی سے دل بہلاتا رہتا ہے۔ اسی طرح بادشاہ سلامت گھر سے نکلتے تھے تو ہاتھی پر سوار ہو کر نکلتے تھے۔آج کل چڑیاگھر میں بچے تفریحاً ہاتھی پر سواری کرتے ہیں جبکہ سفر وغیرہ کے لئے تیز رفتار بسیں ،ویگنیں، کاریں اور موٹر سائیکلیں موجود ہیں۔مغل اعظم شہنشاہ اکبر کی کتنی دہشت دلوں پر بٹھائی گئی ہے مگر موصوف کی کسمپرسی کا یہ عالم تھا کہ کبھی اسکوٹر پر نہیں بیٹھے تھے، قصہ گوکو رات بھر بٹھائے رکھتے تھے اور اس سے اڑن کھٹولوں کی صرف کہانیاں سنتے تھے جبکہ آج کا انسان ان اڑن کھٹولوں پر دنیا بھر میں ا ڑتا پھرتا ہے ۔

ان بے چارے شہنشاہوں کی محرومی کی داستان بہت طویل ہے، کہتے ہیں جہاں وہ رہتے تھے اسے قمقموں اور ہنڈولوں وغیرہ سے بقعہ نور بنایا جاتا تھا، ٹھیک ہے ایسے ہی ہو گا مگر آج مزدور بھی اپنی جھونپڑی میںداخل ہوتا ہے تو ایک بٹن دبا کر اپنے کمرے کو روشن کر دیتا ہے، بڑے بڑے کروفر والے شہنشاہ اپنے کمرے کو ٹھنڈا کرنے کے لئے ہزار جتن کرتے تھے مگر اس مخصوص قیام گاہ کے باہر ان کی ساری شہنشاہی دھری کی دھری رہ جاتی تھی، ان بے چاروں نے ایئرکنڈیشنر کی کبھی شکل بھی نہیں دیکھی ،آج ایک ایک گھر میں آٹھ آٹھ ایئر کنڈیشنر لگے ہوئے ہیں جو خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے وہ ٹکٹ خرید کر کسی ایئرکنڈیشنڈ سینما میں جا بیٹھتے ہیں، ناچ گانا بھی دیکھتے ہیں اور پوری دوپہر بھی وہاں گزار دیتے ہیں ،آپ یقین کریں کہ اگر میں ان نام نہاد فرمانروائوں کی غربت کا احوال لکھنے بیٹھوں تو یہ داستان کہیں ختم نہ ہو۔چنانچہ میں گفتگو کو مختصر کرتے ہوئے بس اتنا بتاتا چلوں کہ ملک پر ملک فتح کرنے والے یہ شہنشاہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ بیٹھے بٹھائے ایک ملک سے دوسرے ملک میں اس طرح بات ہوسکتی ہے جیسے آمنے سامنے بیٹھ کر بات ہو رہی ہو۔ایک بادشاہ کا بخار تازہ تازہ ایجاد شدہ کسی مغربی دوا سے فوراً اتر گیا تو اس نے انعام میں گوروں کو اتنی سہولتیں دے دیں کہ وہ گورے رفتہ رفتہ اس کے ملک پر قابض ہو گئے، بس یہاں آکر ماضی اور حال کی صورتحال میں قدرے مماثلت پیدا ہو جاتی ہے۔ہم جیسے پسماندہ ملک کے بادشاہ سلامت بھی ان گوروں کی ٹیکنالوجی وغیرہ بلکہ بعض اوقات تو محض آسائشیں استعمال کرنے کے شوق میں آہستہ آہستہ اپنا ملک ان کے پاس رہن کرتے چلے جاتے ہیں اور پتہ اس وقت چلتا ہے جب چڑیاں کھیت چگ گئی ہوتی ہیں۔

خیر یہ بات تو برسبیل تذکرہ درمیان میں آ گئی ورنہ میں تو ماضی کے فرمانروائوں کی مجبوریاں اور محرومیاں گنوا رہا تھا یعنی کہنے کو تو یہ بادشاہ تھے مگر ان بےچاروں نے ساری عمر فریج کا پانی نہیں پیا ،ایئرکنڈیشنڈ کمرے کی شکل نہیں دیکھی ، ٹی وی پر کوئی فلم نہیں دیکھی، جہاز ، کار اور موٹر سائیکل تو چھوڑیں بے چاروں کو بس میں بیٹھنے کا بھی موقع نہیں ملا، اور تو اور ان بے چاروں کو اپنا اقتدار قائم رکھنے کے لئے کتنی مشقتیں اٹھانا پڑتی تھیں، سینکڑوں میل گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر بیٹھ کر سفر کرتے تھے، چلچلاتی دھوپ میں تلوار سونت کر بنفس نفیس دشمن پر حملہ آور ہوتے تھے چنانچہ کئی دفعہ تخت یا تختہ کی نوبت آ جاتی تھی جبکہ ان دنوں کسی ملک پر قبضہ کرنے کے لئے کسی کو سینکڑوں میل کا سفر گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر بیٹھ کر طے نہیں کرنا پڑتا، اسے اپنے ہاتھوں سے ایک گولی بھی نہیں چلانی پڑتی بس ایک سہانی شام کو جب لوگ اپنے گھروں میں بیٹھ کر ٹی وی دیکھ رہے ہوتے ہیں انہیں اپنے نئے حکمران کی تصویر ٹی وی اسکرین پر نظر آتی ہے جو اپنی بات ’’میرے ہم وطنو ‘‘سے شروع کرتا ہے۔ دراصل ماضی کے مطلق العنان فرمانروائوں کے مقابلے میں جہاں آج کا عام آدمی بھی بہتر زندگی بسر کرتا ہے وہاں آج کے مطلق العنان فرمانروا بھی ان شہنشاہوں سے بہت بہتر پوزیشن میں ہیں کہ بغیر لڑائی مارکٹائی کے اقتدار پر قابض ہو جاتے ہیں اور اس وقت تک اقتدار کی کرسی نہیں چھوڑتے جب تک کوئی ناہنجار یہ کرسی نیچے سے کھینچ نہیں لیتا۔ان میں سے جو سمجھ دار ہوتے ہیں اور جنہوں نے گرم و سرد زمانہ چکھا ہوتا ہے وہ خودہی تھوڑی دیر کے لئے پیچھے ہٹ جاتے ہیں اور اس کے بعد مناسب موقع دیکھ کر وہ دوبارہ کرسی پر براجمان ہو جاتے ہیں، سو اس ساری گفتگو کا حاصل یہ ہے کہ ماضی کے بادشاہ محض بھولے بھالے بادشاہ تھے، ہمیں تاریخیں پڑھ پڑھ کر ان سے خواہ مخواہ مرعوب نہیں ہونا چاہئے۔