معروف دینی سکالر سنئیر کالم نگار پیر ضیا الحق نقشبندی کے بڑے بھائی کمال مرتضی نقشبندی قضائے الہی سے نارووال میں انتقال کر گئے ہیں. ان کی نمازہ جنازہ آج 12نومبر کو 2بجے مالوکے بس سٹاپ (صادق آباد)ظفروال روڈ ضلع مزید پڑھیں
فوج میں تقسیم کی سازش
حالیہ سیلاب آفت نہیں بلکہ ام الآفات یا آفتوں کی ماں ہے۔ تباہ حال معیشت کے ساتھ پاکستان کو اب سیلاب کی صورت میں جس تباہی کا سامنا ہے، اس سے نمٹنا ریاست کے لئے اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ دوست ممالک نے جو مدد دی ہے وہ اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہے۔ موجودہ آفت سے نمٹنے کے لئے ہمیں عالمی برادری کو پوری قوت کے ساتھ متوجہ کرنا ہوگا۔ اس کے لئے ہمیں عالمی اداروں سے قرضوں کی معافی سمیت دیگر کئی مطالبات کرنا ہوں گے اور انہیں قائل کرنا ہوگا ۔ یہ تبھی ممکن ہے کہ ہماری سیاست اور صحافت کا محور اور مرکز سیلاب اور اس کے متاثرین بن جائیں ۔ ان حالات میں اگر کوئی فرد سیاست یا صحافت کا رُخ کسی اور ایشو کی جانب موڑتا ہے تو وہ سیلاب متاثرین کے ساتھ ظلم اور پاکستان کے ساتھ زیادتی کا مرتکب ہوتا ہے کیونکہ ہماری سیاست اور صحافت میں دیگر ایشوز پر بحث کو دیکھ کر باہر کی دنیا کو یہ تاثر ملتا ہے کہ شاید پاکستان کو کسی بڑی اور غیرمعمولی آفت کا سامنا نہیں کیونکہ اس قوم کے رہنما اور میڈیا خود دیگر ایشوز کی جانب متوجہ ہیں۔ یوں سیاسی جلسے کرنا اپنی جگہ لیکن جب ہر جلسے میں عمران خان افواجِ پاکستان سے متعلق ہرزہ سرائی کرتے ہیں تو نہ صرف سیاست اور صحافت اس کے گرد گھومنے لگ جاتی ہے بلکہ دنیا کی توجہ بھی اس طرف سے ہٹ جاتی ہے۔ یہ ملک کے ساتھ بدترین زیادتی اور سیلاب متاثرین کے ساتھ ظلمِ عظیم ہے جس کا عمران خان تسلسل کے ساتھ مرتکب ہورہے ہیں۔
اس وقت نصف پاکستان پانی میں ڈوبا ہوا ہے اور سیلاب سے متاثر ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے علاوہ پاکستانی فوج ریسکیو کے کاموں میں بھی مصروف ہے۔ اس آفت کے آغاز میں سدرن کمانڈ کے کمانڈر جنرل سرفراز کئی دیگر افسروں کے ساتھ سیلاب زدگان کے لیے امدادی سرگرمیاں انجام دیتے ہوئے جامِ شہادت نوش کرگئے۔ اپنے اس عظیم کمانڈر کی شہادت کو جس طرح عمران نیازی نے غلیظ سیاسی پروپیگنڈے کی نذر کرنے کی کوشش کی تو سپاہی سے لے کر جنرل تک سب کے دل دُکھے ۔ اب جب وہ ہر روز فوج سے متعلق کوئی نہ کوئی تنازعہ کھڑا کرتے ہیں تو جنگ یا سیلاب زدگان کی مدد میں مصروف ان سپاہیوں اور افسروں کے زخموں پر دراصل نمک پاشی کرتے ہیں۔ حالانکہ ابھی ان باتوں کی کوئی ضرورت بھی نہیں ۔ مثلاً آرمی چیف کی تقرری کا مرحلہ فی الحال تین ماہ دور ہے لیکن گزشتہ روز انتخابی جلسے میں انہوں نے ایسا بیان دیا کہ جس کی وجہ سے فوج کی موجودہ، سابق اور آنے والی قیادت سے متعلق ایک غیرضروری بحث شروع ہوگئی، جس کے بارے میں چیف جسٹس اطہرمن اللہ جیسے آزادیٔ اظہار اور انسانی آزادیوں کے علمبردار جج کو بھی مجبوراً یہ کہنا پڑا کہ عمران خان کے اس طرح کے بیانات سے فوج کے مورال پر اثر پڑتا ہے ۔ دوسری طرف تمام افواج کی ترجمانی کرنے والے آئی ایس پی آر کو یہ بیان جاری کرنا پڑا کہ عمران خان کے بیان کی وجہ سے افواج پاکستان کی صفوں میں غم وغصہ پایا جاتا ہے ۔
عمران خان نے یہ تاثر دیا کہ آرمی چیف بننے کے لئے کوالیفائی کرنے والوں میں کوئی غیرمحبِ وطن بھی شامل ہوسکتا ہے ۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سابق صدر زرداری، سابق وزیراعظم نواز شریف یا موجودہ وزیراعظم شہباز شریف تھری اسٹار جرنیلوں سے باہر کسی کو آرمی چیف نہیں بناسکتے ۔ عمران خان کے اس فقرے سے یہ تاثر نکلتا ہے کہ خدانخواستہ کوئی تھری اسٹار جرنیل غیر محب ِوطن بھی ہوسکتا ہے۔ اب یہ تو ظاہر ہے کہ آنے والے آرمی چیف کے لئے حسبِ روایت چند نام موجودہ آرمی چیف بھیجیں گے اور وزیراعظم ان میں سے کسی ایک کا انتخاب کریں گے۔ یوں عمران خان نے موجودہ نہیں بلکہ آنے والے آرمی چیف کو بھی ابھی سے متنازعہ بنانا شروع کر دیا ہے، حالانکہ تقرر کوئی بھی کرے لیکن تقرری کے بعد وہ فوج کا چیف ہوتا ہے۔
آئینی اور اصولی طور پر تو آرمی چیف کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہئے لیکن اگر عمرانی کلیے کو صحیح مان لیا جائے تو بھی ان کی گفتگو خرافات کے سوا کچھ نہیں۔مثلاً جنرل ضیا کا تقرر بھٹو نے کیا اور پھران کے دور میں ہی ان کو پھانسی ملی۔ جنرل مشرف کا تقرر نواز شریف نے کیا تھا اور اسی جنرل مشرف نے انہیں اقتدار سے باہر نکال کر مارشل لا لگا دیا۔جنرل آصف نواز، جنرل وحید کاکڑ، جنرل جہانگیر کرامت، جنرل پرویز مشرف، جنرل اشفاق کیانی، جنرل راحیل شریف اور جنرل قمر جاوید باجوہ سب وہ آرمی چیفس ہیں جن کا تقرر مسلم لیگ (ن) یا پیپلز پارٹی کے وزرائے اعظم نے کیا تو عمرانی کلیے کے مطابق کیایہ جرنیل غیرمحبِ وطن یا کرپشن کی سرپرستی کرنے والے تھے؟ حالانکہ آرمی چیف صرف اپنے فوج کا چیف ہوا کرتا ہے ۔ جنرل راحیل شریف کا انتخاب نواز شریف نے کیا تھا لیکن ان کے دور میں ان کی حکومت کے خلاف دھرنے ہوئے اور اسی دور میں آئی ایس آئی پی ٹی آئی کی سرپرستی کرتی رہی۔ اسی طرح جنرل قمر جاوید باجوہ کا انتخاب میاں نواز شریف نے کیا تھا لیکن ان کے دور میں نواز شریف حکومت سے محروم ہوئے اور عمران نیازی نہ صرف وزیراعظم بنے بلکہ تاریخ کے وہ وزیراعظم رہے جن کی فوج نے سب سے زیادہ مدد کی ۔
آخری اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہر پاکستانی خواہ وہ سویلین ہو یا فوجی، محبِ وطن ہے ۔ کسی فوجی کی حب الوطنی سے متعلق (جب تک کوئی عدالت ثابت نہ کردے) کوئی سوال اس لئے نہیں اٹھایا جاسکتا کیونکہ اس نے ملک کی خاطر جان قربان کرنے کی قسم کھائی ہوتی ہے ۔ فوج میں جو لوگ ہر معیار پر بہترین قرار پاتے ہیں، وہ تھری اسٹار بنتے ہیں اور ہر تھری اسٹار آرمی چیف بننے کا اہل ہوتا ہے۔یوں ان میں حب الوطنی اور کرپشن کی بنیاد پر تفریق کرنا قبیح ترین عمل ہے۔
فوج اگرسیاست، عدالت، صحافت یا حکومت کے معاملات میں نیوٹرل نہیں رہتی تو وہ اپنے حلف کی خلاف ورزی کرتی ہے اور یہاں تنقید نہ صرف جائز بلکہ فرض بن جاتی ہے لیکن عمران خان کی تنقید کی بنیاد یہ ہے کہ فوج آئینی رول تک محدود ہوکر نیوٹرل کیوں بنی؟ انہوں نےجب فوجی قیادت سے مطالبہ کیا کہ وہ ماضی کی طرح ان کے حق میں غیرآئینی کردار ادا کرے تو انہیں جواب ملا کہ وہ نیوٹرل رہیں گے۔ اب بھی انہوں نے کرپشن کے حوالے سے آرمی چیف کا ذکر کیا ہے حالانکہ ازروئے آئین کرپشن پر پکڑ کرنا فوج کا نہیں بلکہ نیب اور عدالتوں کا کام ہے۔ اس حوالے سے اگر فوج مداخلت کرتی ہے تو آئین شکنی کی مرتکب ہوتی ہے۔ اب بھی نیازی صاحب فوج کے ادارے پر تنقید اس لئے کررہے ہیں کہ وہ اپنے آئینی دائرے سے نکل کر ان کے حق میں غیرآئینی کردار ادا کرے جب کہ ہماری تنقید کی بنیاد یہ تھی کہ سیاست، صحافت اور پارلیمنٹ میں مداخلت فوج کا کام نہیں۔