پیارے الیکشن، تم کہاں ہو؟

انتخابی سرگرمیاں شروع ہوتے ہی شہروں اور دیہات میں مختلف قسم کی چہل پہل شروع ہو جاتی ہے، خصوصاً اندرون شہر کی سرگرمیاں تو دیکھنے کے قابل ہوتی ہیں، جگہ جگہ ’’چوپال‘‘ بن جاتے ہیں، حلوائی کی دکان پر لسی کے دور چل رہے ہوتے ہیں، چائے کے کھوکھے بھی سج جاتے ہیں، پان کی دکان پر بھی سیاسی گپ شپ چل رہی ہوتی ہے، ان دنوں امیدواروں کی ’’آنیاں جانیاں‘‘ قابل دید ہوتی ہیں، انہیں سارے بھولےبسرے رشتےیاد آ جاتے ہیں، کہیں برسوں پہلے فوت ہونے والے شخص کے اہل خانہ کے پاس فاتحہ خوانی کیلئے چلے جاتے ہیں تو کہیں اسے شادی کی مبارکباد دینے جو اب بال بچوں والا ہو گیا ہوتا ہے، اتنی گونا گوں مصروفیات کی وجہ سے بھول چوک بھی ہو جاتی ہے چنانچہ تعزیت والے گھر مبارکباد اور مبارک والے گھر تعزیت کرنے بیٹھ جاتےہیں۔ اس کے علاوہ مستقبل کے جن ووٹروں کا کبھی حال تک نہیں پوچھا ہوتا اس کے بچوں کے بارے میں پوچھتے ہیں کہ کہیں نوکری ملی کہ نہیں، پھر ان کے کوائف نوٹ کرنے لگتے ہیں، سڑکوں پر بینر لگتے ہیں، امیدوار کے انتخابی آفس کے باہر دیگیں کھڑک رہی ہوتی ہیں، اور یوں ہر طرف خاصا ہلا گُلا نظر آتا ہے۔

صرف یہی نہیں میڈیا کے دوستوں سے تجدید ملاقات ہوتی ہے، انہیں کھانے پر بلایا جاتا ہے، علاقے کے تھانیدار اور بیوروکریٹ سے بھی ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوتا ہے، علاقے کے تھانیدار سے تو خیر کسی نہ کسی حوالے سے ملاقات ہوتی ہی رہتی ہے مگر اس نوع کے دوسرے ’’منافع بخش‘‘ لوگوں کے پاس بھی سلام کیلئے حاضر ہونا پڑتا ہے، تاہم فی الحال اس طرح کی کوئی سرگرمی نظر نہیں آرہی، ایسے لگتا ہے جیسے انتخابات رستے ہی میں کہیں تھک کر بیٹھ گئے ہیں، اللہ جانے ’’قیلولہ‘‘ کیلئے کتنا وقت درکار ہے، تاہم پیپلز پارٹی ابھی سے سرگرم عمل دکھائی دیتی ہے۔ مجھے یہ تو علم نہیں کہ گلیوں اور بازاروں میں الیکشن کی رونقیں نظر آتی ہیں کہ نہیں، البتہ ٹی وی چینلز پر ان کی اشتہاری مہم بہت موثر دکھائی دیتی ہے، مسلم لیگ (ن) کی اشتہاری مہم صرف نئے منصوبوں کی تختی لگانے تک محدود تھی۔؎

کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک

مگر اب یہ مہم بھی نظر نہیں آتی۔ باقی رہ گئی پی ٹی آئی تو وہ سوشل میڈیا پر ہمیشہ کی طرح آج بھی سرگرم عمل ہے، وہی گالی گلوچ، وہی ’’عمرانیات‘‘ تاہم اب وہ پچاس لاکھ گھروں اور ایک کروڑ نوکریوں کی بات نہیں کرتی، اور نہ مرغیاں پالنے کے منافع بخش کاروبار کی تلقین کرتی ہے، البتہ اب نو مئی کے سانحات کے ذکر پر کہتی ہے یہ ہم نے نہیں کیا، بقول شاعر ؎

فتنہ جگا کے دہر میں، آگ لگا کے شہر میں

جاکے الگ کھڑے ہوئے، کہنے لگے کہ ہم نہیں

میرے دل میں بھی اس وقت خان کیلئے جگہ پیدا ہوئی تھی جب کہا گیا تھا کہ پی ٹی آئی برسراقتدار آتے ہی تمام صوبوں کے گورنر ہائوسز ملبے میں تبدیل کرکے وہاں یونیورسٹیاں بنائےگی، بیوروکریٹس کے کئی کئی کنال میں بنے ہوئے گھروں کی بجائے انہیں بس رہائشی گھر دیئے جائیں گے، خان یورپ کے وزرائے اعظم کے بارے میں قوم کو بتایا کرتے تھے کہ وہ سائیکل پر اپنے دفتر آتے جاتے ہیں، مگر موصوف نے خود سائیکل کی بجائے ہیلی کاپٹر کو ترجیح دی۔

چلیں چھوڑیں ان باتوں کو فی الحال انتخابات کےبارے میں سوچتے ہیں، سوچنے میں کیا حرج ہے، میرے آپ کے سوچنے سے انتخابات ہو تو نہیں جائیں گے اور لگتا ہے کہ فی الحال ہونے بھی نہیں ہیں کہ اس کے آثار کہیں نظر نہیں آتے بلکہ خود عمائدین التوا کے اشارے دے رہے ہیں، اس کے علاوہ ابھی نگراں حکومت کی تشکیل کے بارے میں بھی کچھ پتہ نہیں اور وزیر اعظم کے حوالے سے چند نام سامنے آئے ہیں اور حتمی نام نہ تو ابھی سامنے آیا ہے اور نہ اتنی جلدی آنے کی توقع ہے، اللہ جنت الفردوس میں جگہ دے مجاہدِ اردو فضل الرحمٰن لاہوری کو وہ اگر زند ہ ہوتے تو اس بار بھی وہ بطور امیدوار سامنے آتے کہ موصوف ہر الیکشن پر خود کو صدر اور وزیراعظم کی پوسٹ کیلئے موزوں ترین امیدوار گردانتے تھے بلکہ انہوں نے اپنی کابینہ بھی تشکیل کردی تھی، جس میں وزیر اطلاعات منوبھائی اور وزیر تعلیم راقم الحروف کو نامزد کر رکھا تھا، بہرحال فی الوقت تو ہر طرف ناامیدی ہی نا امیدی ہے، جس کا مداوا بے حد ضرور ی ہے۔کہ کچھ لوگ افراد سے عناد کو پاکستان سے عناد تک کھینچ لائے ہیں، یہ ہر وقت پاکستان ٹوٹنے کی بات کرتے ہیں، پاکستان پر طنز کرتے ہیں اور انڈیا کی ترقی کے قصیدے پڑھتے دکھائی دیتےہیں اور اس میں بیرون ملک آباد پاکستانی بھی کسی سے پیچھے نہیں۔

یہ صورتحال انتہائی تشویشناک ہے اور اس کا سدباب صرف فوری اور شفاف انتخابات کی صورت میں ہی ہوسکتا ہے مگر جو بدزبان، بدکلام اور من مانی چاہنے والا طبقہ ہمارے درمیان پیدا ہو چکا ہے اسے ’’آرام‘‘ آنے میں بہرحال ابھی دیر لگے گی۔ برسراقتدار پی ڈی ایم کی تمام سیاسی جماعتوں کو الیکشن کے علاوہ ایک ایسا متفقہ پروگرام بھی تشکیل دینا چاہئے جو قوم کے سبھی طبقوں کے دماغوں کی تطہیر کرسکے۔ اس کے علاوہ دانشوروں سے بھی مدد لی جاسکتی ہے کہ الیکشن اپنی جگہ، کسی کی کامیابی اور کسی کی ناکامی بھی اپنی جگہ مگر پاکستان کو مضبوط بنانا اور وسوسے پیدا کرنے والوں کو صحیح رستہ دکھانا بھی بہت ضروری ہے کہ پاکستان ہے تو ہم بھی ہیں، پاکستان نہیں تو پھر کچھ بھی نہیں۔