معروف دینی سکالر سنئیر کالم نگار پیر ضیا الحق نقشبندی کے بڑے بھائی کمال مرتضی نقشبندی قضائے الہی سے نارووال میں انتقال کر گئے ہیں. ان کی نمازہ جنازہ آج 12نومبر کو 2بجے مالوکے بس سٹاپ (صادق آباد)ظفروال روڈ ضلع مزید پڑھیں
بھولے ڈنگر اور حکمرانوں کی مونچھیں!
بھولے ڈنگر سے گزشتہ دنوں ملاقات ہوئی، یہ ملاقات ایک طویل وقفے کے بعد ہوئی تھی ۔میں نے دیکھا کہ اس کے چہرے پر بڑی بڑی مونچھیں ہیں حالانکہ میں اسے پہلے دن سے کلین شیو دیکھتا چلا آیا تھا۔ میں نے پوچھا’’ بھولے یہ مونچھیں کس خوشی میں رکھی ہیں ‘‘ بولا تمہیں تو پتا ہی ہے کہ میں دشمن دار آدمی ہوں، متعدد مواقع پر کسی سے بات کرتے ہوئے مونچھوں کو تائو دینے کی ضرورت محسوس ہوتی تھی لیکن مونچھیں نہ ہونے کی وجہ سے میں صرف تائو کھا کر رہ جاتا تھا چنانچہ میرا مخالف مجھے پاکستانی حکمران سمجھ کر میرے تیوروں کو کوئی اہمیت ہی نہیں دیتا تھا‘‘ میں نے ہنستے ہوئے پوچھا اب کیا صورتحال ہے؟ بولا، فی الحال پرانی صورتحال برقرار ہے کیونکہ ابھی تک ان مونچھوں کے پیچھے میرا زنانہ سا چہرہ ہی نظر آتا ہے۔ اس پر ایک بار پھر میری ہنسی نکل گئی، میں نے کہا’’ بھولے ڈنگر خدا کا خوف کرو‘‘ یہ تم کیا کہہ رہے ہو میں نے آج تک کسی ڈنگر میں زنانہ پن کی کوئی علامت نہیں دیکھی؟ بھولا بولا ،’’تم یہ بات کسی ایسے شخص سے کہو جو تمہیں جانتا ہو کیونکہ میں نے تو تمہارے اردگرد ہمیشہ ایسے زنانہ چہرے دیکھے ہیں جن میں ڈنگر پن کے علاوہ کوئی اور خصوصیت نظر ہی نہیں آئی ‘‘۔اس قدر گھٹیا حملے کی توقع بھولے ڈنگر ہی سے ہو سکتی تھی یہی وجہ ہے کہ میں ایسے مواقع پر اس کے منہ لگنے سے ہمیشہ گریز کرتا ہوں مگر غلطی تو ہو چکی تھی چنانچہ میں نے موضوع بدلتے ہوئے کہا ’’تمہاری مونچھوں کے بارے میں پبلک نے کیا رائے دی ہے! بھولے نے جواب دیا’’ میں نے اس حوالے سے سروے کرانے کے لئے کئی عالمی اداروں سے رابطہ کیا ہے ان کی مرتب کردہ سروے رپورٹ سامنے آئے گی تو کچھ کہہ سکوں گا۔ میں نے کہا بھولے تم میرے دوست ہو لہٰذا تمہیں یہ بتانا ضروری ہے کہ ان سروے کرنے والے بین الاقوامی اداروں کی فیس بہت زیادہ ہوتی ہے۔ اس طرح کی ایک فرم کا ذیلی دفتر لاہور کے ایک محلہ بھونڈ پورہ میں قصائی کی دکان کے اوپر والی منزل میں واقع ہے اس کا ڈائریکٹر پارٹ ٹائم سائیکلوں کو پنکچر لگانے کا کام بھی کرتا ہے۔ میری اس سے سلام دعا ہے کہو تو میں اس سے بات کروں؟ بھولے نے جواب دیا میں اس سے بات کر چکا ہوں، اس نے مجھے دو طرح کے ریٹ دیئے ہیں جس سروے میں میری مونچھوں کو میری شخصیت میں خوبصورت اضافہ قرار دیا جائے گا وہ بہت زیادہ ہے اور جس میں یہ ظاہر کرنا ہے کہ یہ مونچھیں میری بدنمائی کا باعث بنی ہیں اس سروے کو سامنے لانے کا ریٹ پہلے ریٹ سے کہیں بڑھ کر ہے۔ میں نے پوچھا پھر تم نے کیا سوچا؟ کہنے لگا سوچنا کیا ہے اب مونچھیں رکھی ہیں تو ان کی لاج بھی رکھنا پڑے گی۔ میں ان مونچھوں کو اپنی خوبصورتی میں اضافے والے سروے کو ترجیح دینے کا سوچ رہا ہوں تاہم ابھی کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا۔ اگلے روز بھولے ڈنگر سے ملاقات ہوئی تو میں نے دیکھا کہ اس نے مونچھوں کے دونوں سرے اوپر کی طرف اٹھائے ہوئے تھے اور یوں ان کی شکل ’’W‘‘جیسی ہو گئی تھی میں نے پوچھا تم نے مونچھوں کا یہ ڈیزائن کس خوشی میں بنایا ہے بولا مونچھ اونچی رکھنے ہی کیلئے رکھی جاتی ہے یہ اگر نیچی ہو گئی تو پھر انہیں پالنے کا کوئی فائدہ نہیں میں نے کہا، پالنے سے تمہاری کیا مراد ہے؟ اس نے میری ناقص معلومات پر کفِ افسوس ملتے ہوئے جواب دیا تم نے اگر کبھی مونچھ رکھی ہوتی تو تمہیں پتہ ہوتا کہ اس کا پروٹوکول کیا ہوتا ہے ارے بھائی چہرے کے بالوں کا آپریشن کلین اپ یعنی شیو کرتے ہوئے مونچھوں والے حصے کو ’’نو گو ایریا‘‘ قرار دینا پڑتا ہے، اردگرد کے بال پوری بے دردی سے ریزر کے ساتھ ذبح کر دیئے جاتے ہیں مگر ریزر کو نو گو ایریا یعنی مونچھوں کے قریب نہیں پھٹکنے دیا جاتا تاکہ ان کی آن بان قائم رہے صرف یہی نہیں بلکہ مونچھوں میں اگر کوئی سفید بال سر اٹھاتا نظر آتا ہے تو اسے پھلنے پھولنے سے پہلے ہی موچنے سے اکھاڑ پھینکنا ضروری ہوتا ہے تاکہ صاحب مونچھ کی جاہ و حشمت اور طاقت و جبروت کا دبدبہ کم نہ ہو۔مونچھوں کا رعب و دبدبہ ایسے ہی تو نصیب نہیں ہوتا ۔
لیکن آج صبح بھولے ڈنگر سے ملاقات ہوئی تو یہ دیکھ کر میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ اس کا چہرہ صفا چٹ تھا اور دور دور تک مونچھوں کا نام و نشان تک باقی نہ تھا۔ میں نے پوچھا بھولے تیری مونچھوں کا کیا ہوا؟ بولا ایک محاورہ سنا تھا چنانچہ حفظِ ما تقدم کے طورپر مونچھیں منڈا ڈالیں۔ میں نے سوال کیا تم کون سا ایسا مونچھ دشمن محاورہ سن بیٹھے تھے مجھے بھی تو بتائو، بھولے نے کہا ’’یہی کہ کرے داڑھی والا پکڑا جائے مونچھوں والا‘‘ میں نے کہا ’’یار تم بھلیکھے میںمارے گئے کیونکہ ان دنوں اگر مونچھوں والا بھی دہشت گردی کی کوئی کارروائی کرے تو پکڑا داڑھی والا ہی جاتا ہے ۔ یہ سن کر بھولا اداس سا نظر آیا اسے شاید اپنی پلی پلائی مونچھوں کی جواں مرگی یاد آ گئی تھی‘‘ بولا ’’یہ بات تم نے مجھے پہلے کیوں نہیں بتائی۔ میں نے جواب دیا تم نے مجھ سے پوچھا کب تھا؟ اس پر اس نے شرمندگی سے کہا یہ تو تم ٹھیک کہتے ہو مگر اب مجھے مشورہ دو کہ مجھے کیا کرنا چاہئے کیونکہ میرے دشمنوں پر میری مونچھوں کی کافی ہیبت بیٹھ گئی تھی لیکن اب وہ مجھے دیکھ کر ہنستے ہیں۔
دو تین نے تو مجھے اشتعال دلانے کیلئےمیرا منہ بھی چڑایاہے میں نے جواب دیا میرے بھولے دوست دشمنوں کا مقابلہ مونچھوں سے نہیں زورِ بازو سے کیا جاتا ہے لیکن اگر تم صرف مونچھوں سے ان پر جعلی عکس ڈالنا چاہتے ہو تو ایک طریقہ ایسا ہے جو تم آزما سکتے ہو۔ بھولے نے پوچھا وہ کیا؟ میں نے کہا بازار سے دس بیس روپے میں اچھی مونچھ مل جاتی ہے وہ خرید لو، تمہارے بہت کام آئے گی۔ بھولے نے غصے سے میری طرف دیکھا اور بولا نقلی مونچھ کو میں نے چاٹنا ہے میں دشمن دار آدمی ہوں۔ میری ضرورت اصلی مونچھ ہے میں نے کہا ’’بھولے جذباتی نہ بنو۔ حقیقت پسندی سے کام لو تمہاری تو حیثیت ہی کوئی نہیں۔ ہمارے تو حکمرانوں کی مونچھیں بھی نقلی ہیں۔ انہوں نے جب عوام کو یرکانا ہوتا ہے تو اسے ’’W‘‘کی شکل دے دیتے ہیں۔ اسے تائو دینے میں لگے رہتے ہیں لیکن اگر عوام اپنے مطالبے پر ڈٹ جائیں تو یہ اپنی کھڑی مونچھیں فوراً نیچے کی طرف لٹکا دیتے ہیں، ان لمحوں میں ایسے لگتا ہے جیسے جرابیں سوکھنے کے لیے ڈالی ہوئی ہیں اور جب یہ امریکہ یا قرض لینے کے لئے کسی بھی ملک میں جاتے ہیں تو یہ مونچھیں اتار کر گھر چھوڑ جاتے ہیں لہٰذا میرے پیارے بھولے ڈنگر حکمرانوں کے طور طریقے اپنائو، یہ کیا تم غیرت ویرت کے چکر میں پڑے ہوئے ہو۔ بجائے اس کے کہ بھولا میرے قیمتی مشورے پر عمل کرتا، اس نے رونا شروع کر دیا جو قومیں اپنے مجھ ایسے دانشوروں کے مشوروں کی قدر نہیں کرتیں، ان کے مقدروں میں رونا ہی لکھا ہوتا ہے۔