مجید نظامی سے میر شکیل الرحمٰن تک!

مجھے اپنی زندگی میں دو بڑے مدیران کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا ہے ایک مجید نظامی، دوسرے میر شکیل الرحمٰن اور دونوں کے ساتھ میرا تجربہ خوشگوار رہا۔

تازہ تازہ ایم اے کیا تو میرے پیارے دوست ٹور ازم کی جز ئیات پر مکمل عبور رکھنے والے مسعود علی خاں کے بہنوئی حبیب اللہ مظہرمجھے مجید نظامی صاحب کے پاس لے گئے اوردوست سپردم بتو مایۂ خویش را یہ تو ناچیز خویش را کے مصداق مجھے ان کی ’’تحویل‘‘ میں دے دیا مجید صاحب نے مجھے میگزین سیکشن میں محمود شام کے حوالے کیا انہوں نے پہلے ہی دن ’’ٹائمز‘‘ کے تازہ شمارے کا ایک مضمون ترجمہ کرنے کے لئے دیا اردو میں ایم اے پاس نوجوان نے اللہ جانے انگریزی کے نفس مضمون کے ساتھ کتنا بہیمانہ سلوک کیا ہو گا کہ اس کے بعد خوبصورت شاعر اور منجھے ہوئے مدیر محمود شام نے آئندہ میرے ساتھ ایسا سنگین مذاق نہیں کیا خیر کام دھیرے دھیرے آگے بڑھتا گیا اور میں باقاعدہ سب ایڈیٹر کے درجے تک پہنچ گیااور فقط 323روپے ماہوارمشاہرہ مقرر ہوا اتنی بڑی رقم کا سن کر میرے ہاتھ پائوں پھول گئے چنانچہ مجھے پہلی تنخواہ ملی تو میں نے اپنے ایک کولیگ کو جو اقبال ٹائون میں میرا ہمسایہ تھا بطور گارڈ اپنے ساتھ لیا اور ایک ہاتھ مستقل جیب میں ڈالے رکھا ۔

مجید صاحب کی شخصیت بہت بارعب تھی اسٹاف ان کے کمرے میں جاتے ہوئے ڈرتا تھا مگر مجید صاحب کی شفقت اور محبت بتدریج مجھے حاصل ہوتی رہی اور اس کے بعد یہ موقع بھی آیا کہ وہ منیر کو میرے پاس بھیجتے تھے جو بتاتا کہ صاحب آپ کو یاد کر رہے ہیں پہلے دن تو میں سمجھا کہ شاید کوئی بلنڈر ہوگیا ہے مگر حیرت انگیز طور پر انہوں نے اس ’’رنگروٹ‘‘ کے لئے چائے منگوائی بلکہ میز کی دراز میں ہاتھ ڈ ال کر بسکٹ کا ڈبہ نکالا اور اس میں سے ایک بسکٹ آگے کو کھسکا کر مجھے اس طرح پیش کیا جیسے کسی کو سگریٹ پیش کیا جاتا ہے پھر ان کی محبتیں،شفقتیں اور مہربانیاں بڑھتی چلی گئیں وہ اکثر مجھے بلا بھیجتے اور ہمارے درمیان شگفتہ بیانی کا ’’مقابلہ ‘‘ ہوتا ایک دن ایک انگریزی میگزین کی ورق گردانی کے بعد ایک صفحے پر رک گئے اس صفحے پر ایک ایمان شکن دوشیزہ کی ’’بے تکلفانہ ‘‘ انداز کی تصویرتھی مجید صاحب نے میگزین میرے سامنے کیا اور پوچھا یہ تصویر کیسی ہے؟ میں نے کہا ویسی ہی ہے جیسی آپ کو لگی ہے بہت خوبصورت اور شرارت آمیز لہجے میں بولے کیا خیال ہے اسے سنڈے میگزین میں شائع کیا جائے میں نے ہنستے ہوئے جواب دیا آپ یہ میگزین مجھے دیں میں دو چار دن تصویر کے مختلف پہلوئوں پر غور کرنے کے بعد آپ کو اپنی رائے سے آگاہ کروں گا اس پر مجید صاحب کے چہرے پر خوبصورت مسکراہٹ پھیل گئی ۔

مجید نظامی کا رعب داب اتنا تھا کہ اسٹاف ان سے ملنے کے لئے ان کے معتمد خاص نائب قاصد منیر کی خدمات بعوض کچھ خدمت مستعار لیتا تھا اور جب دفتر سے نکلتا تھا تو خوشی سے اس کے پائوں زمین پر نہیں ٹکتے تھے عمائدین حکومت ان کے دفتر سے ملحقہ کمرے میں ان سے ملاقات کا انتظار کرتے تھے مگر میرے ساتھ ان کا رویہ باپ بیٹے جیسا تھا مجھے انہوں نے بتایا کہ لندن میں قیام کے دوران انہوں نے بیئر بھی پی تھی مگر پھر اللہ سے معافی مانگ لی ۔میری شادی میں شہباز شریف کی کار میں آغا شورش کاشمیری اور مجید نظامی صاحب بھی تشریف لائے اور یقیناً یہ میری عزت افزائی تھی، ایک دفعہ مجھے کمر میں ’’چک‘‘ پڑ گئی مجید صاحب عیادت کے لئے آئے اور کہا اب آپ موٹر سائیکل نہیں چلائیں گے اگلے دن انہوں نے ایک برینڈ نیو چھوٹی کار کی چابی مجھے بھجوا دی۔ میں ناروے میں پاکستان کا سفیرمقرر ہوا تو مجید صاحب نے میرے اعزاز میں ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں عشائیہ دیا میں ان دنوں بہت اتھرا اور ’’ہتھ چھٹ‘‘ ہوتا تھا میں نے ادارے کے ایک بہت اہم عہدیدار کی اپنے کام میں مداخلت کی وجہ سے نیوز روم میں بیسیوں افراد کےسامنے خوفناک پٹائی کی صرف یہی نہیں بلکہ انہیں گھسیٹتا ہوا اپنے کمرے میں لے گیا اور تاک تاک کر ’’گھسن‘‘ مارے۔عملے کے لوگوں نے باہر سے دروازہ کھٹکھٹانا شروع کر دیا بالآخر میں نے کنڈی کھولی اور انہیں آزاد کر دیا موصوف کے ناک پر زخم آیاتھا اور اس پر سے لہورس رہا تھا یہ شخص مجید صاحب کی گڈ بکس میں تھا اور نیوز ایڈیٹر تک اس سے ڈرتے تھے اب میں ایک کرسی پر بیٹھا طلبی کے انتظار میں سگریٹ کے کش لگا رہا تھا اتنے میں منیر آیا اور کہا صاحب آپ کو بلا رہے ہیں۔ میں گیا وہ مظلوم ایک کرسی پر بیٹھا تھا اور لہو ابھی تک رس رہاتھا میں ان کے برابر کی کرسی پر بیٹھ گیا۔ مجید صاحب نے پوچھا آپ نے انہیں مارا ؟میں نے کہا جی سر!بولے کیوں مارا؟ میں نے عرض کی یہ میرے کام میں مداخلت کرتے تھے۔ اس پر مجید صاحب نے انہیں مخاطب کیا اور کہا آپ ان کے کام میں آئندہ مداخلت نہیں کریں گے اور پھر مجھے مخاطب کرکے بولے اور قاسمی صاحب آپ آئندہ نہیں ماریں گے، میں واپس نیوز روم میں آیا سب منتظر تھے کہ مجھے ابھی نوکری سے برطرفی کا پروانہ ملےگا جب میں نے انہیں اندر کا قصہ سنایا تو سب بہت خوش ہوئے کیونکہ اندر سے سب ان سے بہت تنگ تھے ۔

اب سوال پیدا ہو گا کہ اتنے مہربان اور شفیق باس کی محبتوں کے باوجودمیں نے نوائے وقت کو کیوں خیر باد کہا، مجید صاحب میرے محسن تھے، انہوں نے مجھے کالم نگار بنایا تھا مگر اس کے باوجود مجھے اخبار چھوڑنا پڑا، میں اس کی وجہ بیان نہیں کروں گا۔ میں اتنا کہوں گا کہ مجھے اپنے فیصلے پر بہت دکھ ہوا، مگر اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔

میری زندگی کے دوسرے مدیر میر شکیل الرحمٰن ہیں انہوں نے مجھے جنگ میں لانے کے لئے بہت کوششیں کیں مگر میں نوائے وقت چھوڑنا نہیں چاہتا تھا، جب نوائے وقت سے علیحدگی ناگزیر ہوگئی تو میں نے میر صاحب کو ہاں کر دی۔ اتنی بڑی ایمپائر کا مالک میرے اس فیصلے سے اتنا خوش ہوا کہ اس نے اپنی والدہ کو فون کرکے یہ خوشخبری سنائی اور اس کے بعد مختلف شعبوں کے سربراہوں کو اپنے آفس میں بلایا اور انہیں یہ خبر سنائی کہ قاسمی صاحب نے ہمیں جوائن کرلیا ہے۔ یہ ان کی وسیع الظرفی تھی ورنہ کون مالک اپنے کسی ملازم کو اس طرح بانس پر چڑھاتا ہے، مگر میر صاحب نے مجھے بے پناہ عزت دی اور ابھی تک ان کی عزت و اکرام میں رتی بھر فرق نہیں آیا۔ کراچی میں میرے برادر بزرگ اور مزاح کے نامور شاعر ضیاء الحق قاسمی کی رحلت ہوئی تو میر شکیل الرحمٰن اپنی والدہ ماجدہ اور بیگم صاحبہ کے ساتھ تعزیت کے لئے آئے اور دوسرے تعزیت کرنے والوں کے ساتھ بڑی دیر تک بیٹھے رہے۔ ان دنوں لاہور میں میری رہائش اقبال ٹائون میں تھی، ایک دن مجھے پوچھنے لگے وہ گھر تو چھوٹا ہے، آپ کا گزارہ ہو جاتا ہے؟ میں نے کہا پہلے ہو جاتا تھا اب بچے بڑے ہوگئے ہیں، پوچھا آپ کے پاس کوئی پلاٹ ہے، میں نے کہا جی ای ایم ای میں ہے۔ دو دن کے بعد مجھے میر صاحب کی طرف سے بیس لاکھ کا چیک موصول ہوا کہ آپ مکان کی بنیادیں تو رکھیں۔ اس کے سال بعد میں نے ان سے بار بار پوچھا کہ میں بیس لاکھ کہاں پہنچائوں مگر وہ مستقل ٹالتے رہے، جیسے وہ واپس نہیں لینا چاہتے تھے، مگر مسلسل تکرار کے بعد ایک دن میں یہ قرض حسنہ واپس کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ اسی طرح عمر بیٹے یا علی بیٹے کی شادی میں شرکت کے لئے اپنی نئی رولز رائس میں آئے جس کی ابھی نمبر پلیٹ بھی نہیں تھی اور بہت دیر تک بیٹھے رہے، بلکہ باقی مہمانوں نے جانا شروع کیا تو پھر ان کے ساتھ رخصت ہوئے۔ جاتے ہوئے دس لاکھ روپے سلامی کے طور پر دے گئے۔ اتنے پیسے تو پورے ولیمے پر خرچ نہیں ہوئے تھے، میں جب کبھی دبئی میں یا لاہورمیں ان سے ملاقات کے لئے گیا ہوں وہ مجھے کار تک چھوڑنے آتے ہیں،اور جب تک کار چل نہ پڑے کھڑے رہتے ہیں۔ یہ ایک بڑے آدمی کی نشانی ہے، چھوٹا آدمی تو ایسے موقع پر مزید چھوٹے پن کا مظاہرہ کرتا ہے۔ مجھے کینسر ہوا تو میر صاحب نے کہا میں لندن کے ایک ڈاکٹر سے ٹائم لے لیتا ہوں، آپ وہاں جا کر آپریشن کروائیں، مگر میں نے دل کی گہرائیوں سے شکریہ ادا کیا اور لاہور ہی میں الحمد للہ میرا کامیاب آپریشن ہوا۔ دو چار چھ دفعہ میر صاحب سے جو ملاقاتیں ہوئیں ہیں وہ ایک دوست کی طرح کھلے ڈلے ماحول میں ہوئی ہیں، وہ صرف میرے ہاتھ پر ہاتھ نہیں مارتے مگر کھل کر قہقہہ لگاتے ہیں، کبھی کبھی مجھے دلچسپ پوسٹ بھی بھیجتے ہیں اور میں بھی ’’جواب آں غزل‘‘ پیش کرتا ہوں۔ ایسا کہاں سے لائوں کہ تجھ سا کہیں جسے۔ تاہم میر صاحب کی جس ’’حرکت‘‘ نے مجھے دلی طور پر ان کے بہت قریب کردیا ہے وہ حکومتوں سے ٹکر لینے کا ہے، انہوں نے ہر دور میں کروڑوں اربوں کا نقصان برداشت کیا لیکن کمپرومائز پر مائل نہیں ہوئے۔ میرے خیال میں بہت عرصے کے بعد کسی بڑے بلکہ سب سے بڑے اخبار اور سب سے بڑے ٹی وی چینل کے مالک نے اصولوں کی خاطر قید و بند کی مشکلات برداشت کیں۔ میں ان سے ملنے گیا تو انہوں نے ملاقاتیوں والے کمرے کی بجائے اپنے کمرے میں بٹھایا اور تقریباً ایک گھنٹہ ملاقات رہی۔ نہایت نیک دل، مہربان دوست، حکمرانوں کے ساتھ بہت اکھڑ ہے، اللہ اس کا یہ اکھڑ پن برقرار رکھے۔ میں ان کے ہونہار صاحبزادے میر ابراہیم کی شادی میں بھی شریک ہوا تھا، ان سے دو تین ملاقاتیں ہوئیں، آج کل وہ ٹی وی چینل کوبہت وقت دے رہے ہیں، باپ بیٹا دونوں بہت وژنری ہیں، یہ ادارہ ہمارا افتخار ہے او ریہ اعزاز ہمیشہ اس کے ہمراہ رہے گا۔