نواز شریف سے بے نظیر تک!

میں نے پوری زندگی میں آج تک کوئی ایسی سیاسی پارٹی نہیں دیکھی جس کا لیڈر یہ کہتا ہو کہ اگر میں برسراقتدار نہیں تو پاکستان پر ایٹم بم پھینک دو، اور آج اس کے پیروکار اپنے لیڈر کی گرفتاری پر اسی قسم کے ردعمل کا اظہار کر رہے ہیں، پاکستان کے وجود کے خلاف مسلسل زہرافشانی کر رہے ہیں اور یوں نئی نسل کے ذہنوں کو پراگندہ کیا جارہا ہے۔ ایک مہم یہ بھی چلائی جا رہی ہے کہ اس بار پاکستان ڈے نہیں منائیں گے۔ انکے بہت سے رہنمائوں کو پاکستان کی ضرورت بھی نہیں، وہ امریکہ سے آئے، یہاں وزارتوں کے مزے لوٹے اور 9مئی کے شرمناک مظاہروں کے بعد پکڑ دھکڑ شروع ہوئی تو واپس اپنے وطن چلے گئے۔ عمران خان کے دونوں بیٹے بھی برطانیہ میں اپنی والدہ جمائما کے ساتھ رہتے ہیں اور اللّٰہ بھلا کرے اس نیک دل عورت جمائما کا جس نے عمران خان کی ایک غیر قانونی بیٹی پر دست شفقت رکھا، جسے عمران خان نے بے یارو مددگار چھوڑ دیا تھا، سو وہ بھی اپنے بھائیوں کے ساتھ جمائما کے پاس ہی رہ رہی ہے۔

عمران ان دنوں اٹک جیل میں ہیں اور شاید اس کالم کی اشاعت یا اس کے ایک دو روز بعد ضمانت پر رہا ہوجائیں مگر انہوں نے شکایت کی ہے کہ ان کے کمرے میں مکھیاں اور مچھر بہت ہیں اور شدید گرمی بھی ہے۔ حالانکہ موصوف اپنے بارے میں یہ کہتے تھے کہ اگر انہیں جہنم میں بھی ڈال دیا جائے تو انہیں گرمی نہیں لگے گی۔ ان کے کارکن میاں نواز شریف کیلئےبینرز پر سلوگن لگایا کرتے تھے ’’نواز شریف کی آرام گاہ اڈیالہ جیل‘‘ اور اب خان صاحب کے وکلا نے سپریم کورٹ سے درخواست کی ہے کہ خان صاحب کو اٹک سے اڈیالہ جیل منتقل کیا جائے۔ آج اگر خان صاحب کا موازنہ نواز شریف ، ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری سے کیا جائے تو بہت معذرت کے ساتھ عمران خان ان کے سامنے بونے لگتے ہیں۔ تین دفعہ وزیر اعظم رہنے والے نواز شریف کو حکومت سے بے دخل کیا گیا، ان پر کرپشن کا کوئی ثبوت نہ ملا، تو انہیں اقامہ اور بیٹے سے تنخواہ نہ لینے پر بدترین سزائیں ،بدترین زبان کے ساتھ سنائی گئیں۔ انہیں جہاز میں ہتھکڑیاں پہناکر لایا گیا، ان کی بیٹی مریم نواز کو ان کے سامنے گرفتار کیا گیا، بیٹی کو بھی جیل بھیجا گیا اور نواز شریف کو بھی۔ خان صاحب نے امریکہ میں تقریر کرتے ہوئے کہا میں واپس پاکستان پہنچ کر نواز شریف کے کمرے کا پنکھا بھی اتروا دوں گا۔ لندن میں نواز شریف کے گھر کے باہر آئے روز بدتمیزی کا مظاہرہ کیا گیا، مگرپاکستان کو ایک خوبصورت ملک بنانے کیلئےکوشاں نوازشریف نے ایک دن بھی پاکستان کیلئےکوئی برا لفظ منہ سے نہ نکالا۔ اسی طرح بھٹو کو ان کی منتخب حکومت ختم کرنے کے بعد جس بے دردی سے ڈیتھ سیل میں رکھا گیا اور پھر مسلم دنیا کے اتحاد کیلئےکام کرنے والے رہنما کو ایک دن تختہ دار پر لٹکا دیا گیا مگر نہ اس نے جیل کی صعوبتوں کا ذکر کیا اور نہ پاکستان کیلئےکوئی بددعا کی۔اس کے کارکن بھی اپنی پیٹھ پر کوڑے کھاتے رہے مگر کسی کی زبان سے پاکستان کے خلاف کوئی کلمہ نہیں نکلا۔اسی طرح بےنظیر بھٹو کو بے دردی سے شہید کیا گیا مگر اس کے کارکنوں نے پاکستان کے حوالے سے کوئی غلیظ بات نہ کی بلکہ پاکستان مردہ باد کی بجائے پاکستان کھپے (پاکستان زندہ باد) کا سلوگن اپنی قوم کو دیا۔ خود آصف علی زرداری دس سال جیل میں رہے ان کی زبان سے بھی ہم نے کبھی کوئی منفی بات نہیں سنی !یہ کون لوگ ہیں کہاں سے آئے ہیں کس کی بولی بول رہے ہیں؟اللّٰہ ان کو ہدایت دے!

میں نے ان کیلئے ہدایت کی دعا اس لئے مانگی ہے کہ ان کی بڑی تعداد پاکستان سے محبت کرتی ہے اور وہ بزعم خود پاکستان کو مستحکم کرنے کیلئےخان کے پیچھے چل رہے ہیں، جھوٹ اور بددیانتی پر مبنی زہریلے پروپیگنڈے نے ان کے دماغ مائوف کر دیئے ہیں اور وہ نہیں جانتے کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔ ان کے لیڈر کوصرف اور صرف اپنی ذات سے محبت ہے، وہ خود پسند اور متکبر شخص ہے وہ تو اپنے عزیز دوستوں اور پاکستان کی نامور شخصیات کے جنازوں میں شرکت نہیں کرتا۔ جو آرمی چیف اسے اقتدار کی مسند پر بٹھادے وہ سب سے بڑا محب وطن ہے اور جو ایسا کرنے سے انکار کرے وہ سب سے بڑا غدار ہے ،سو اس وقت اس کی اور بیرون ملک اس کے غیر ملکی ’’دوستوں‘‘ کی توپوں کا رخ پاکستان کے تمام اداروں کی طرف ہے مگر اِن شااللّٰہ وہی ہوگا جو پاکستان کے عوام چاہیں گے باقی منہ کی کھائیں گے۔پی ٹی آئی کا شور شرابہ زیادہ ہے اور یوں لگتا ہے جیسے میدان میں اس کا حریف کوئی نہیں۔مگر یہ حقیقت نہیں ہے الیکشن کا نقارہ بجنے دیں پھر پتہ چلے گا کون کہاں کھڑا ہے اور کتنے پانیوں میں ہے، سو میری متعلقہ اداروں سے گزارش ہے کہ وہ الیکشن میں تاخیر نہ ہونے دیں اور نتیجہ پاکستانی عوام پر چھوڑ دیں عوام کا فیصلہ ہی صحیح فیصلہ ہوتا ہے!