گھنٹہ گھر

زندگی میں ترقی کرنے کے لئے بہت کچھ کرنا پڑتا ہے اور نہ کرسکیں تو جنہوں نے ترقی کی ہے ان کے بارے میں کہنا پڑتا ہے کہ ’’بیکاری کے زمانے میں میرے پاس آکر بیٹھا کرتاتھا ہم نے کبھی اسے منہ نہیں لگایا‘‘۔ وزیر بننے کے بعد اپنا پرانا زمانہ بھول گیا ہے۔ اب کبھی ملے تو نظریں ہی نہیں ملاتا۔ آپ اگرترقی نہیں کرنا چاہتے تو آپ ایسے لوگوں سے پوچھے بغیر نہیں کرسکتے کہ بیکاری کے زمانے میں جس شخص کو آپ نے منہ نہیں لگایا تھا وزیر بننے کے بعد وہ آپ کو منہ کیوں لگائے؟ ترقی کے خواہش مند بعض لوگ اپنی ولدیت پر بھی بہت شرمندہ ہوتے ہیں۔ ایک غریب مالی نے اپنے اکلوتے بیٹے کو اپنا پیٹ کاٹ کر پڑھایا لکھایا اور جب وہ بیٹا افسر بن گیا تو اپنے والد کو اپنے دوستوں سے چھپانے لگا۔ ایک دن وہ اپنے طبقے کے لوگوں کے ساتھ اپنے گھر کے ڈرائینگ روم میں بیٹھا تھا کہ اس کے سیدھے سادے والد صاحب دھوتی اور بنیان پہنے ڈرائنگ روم میں چلے آئے۔ اس پر صاحب زادے بہت پریشان ہوئے اور انہوں نے جھینپتے ہوئے دوستوں سے اپنے والد کا تعارف کرایا کہ یہ میرے والد کے دوست ہیں۔ اس پر والد صاحب نے کہا انہیں غلطی لگی ہے۔میں ان کے والد کانہیں ان کی والدہ کا دوست ہوں!میرے ایک اور دوست ترقی کرنے کے بہت خواہشمند ہیں کہ وہ ماسی برکتے کے تنور سے کھانا کھانے کے بعد پرل کانٹی نینٹل کے باہر کھڑے ہو کر خلال کرتے ہیں۔ کوئی دوست ادھر سے گزرے تو کہتے ہیں کہ پرائم منسٹر کے خصوصی ایلچی سے اہم مذاکرات کرنا تھے۔ کھانے کی میز پر اس سے بات چیت کرکے بس ابھی فارغ ہوا ہوں۔ ان سے ان کی دن کی مصروفیات پوچھیں تو وہ شروع ہو جاتے ہیں۔ یہ مصروفیات سن کر انداز ہوتا ہے کہ دنیا بھر کی اہم شخصیات اس گھنٹہ گھر کے گرد گھومتی رہتی ہیں اور میرے یہ دوست واقعی گھنٹہ گھر ہیں کہ پہلے دن سے جہاں کھڑے تھے آج بھی وہیں کھڑے ہیں۔

اس قسم کے لوگوں کو تقریبات میں پہلی نشستوں پر بیٹھنے کا بھی بہت شوق ہوتا ہے کئی دفعہ تویہ لائوڈ سپیکر والے سے پہلے جلسہ گاہ میں پہنچ جاتے ہیں اور پہلی صف میں جا بیٹھتے ہیں۔ کبھی اگرلیٹ ہو جائیں تو پچھلی صفیں چیرتے ہوئے آگے آتے ہیں اور عقابی نگاہوں سے خالی نشست ڈھونڈنے لگتے ہیں۔ اگر خالی نشست نظر نہ آئے تو تقریباً کسی کی گود میں جا بیٹھتے ہیں۔ جب لوگ اخبار میں شائع شدہ تصویر یا ٹیلی ویژن کے خبرنامے میں انہیں پہلی صف میں بیٹھا دیکھتے ہیں تو ان صاحب کو احساس ہوتا ہے کہ ان کی مسلح جدوجہد رائیگاں نہیں گئی۔

ترقی کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ اگر کسی محفل میں کسی اہم شخصیت کے برابر میں نشست حاصل کرنے میں کامیابی حاصل ہو جائے تو اس کے کان میں بات ضرورکی جائے خواہ بات ’’ہورکیہ حال اے‘‘ ہی کیوں نہ ہو۔ اس سے ارد گرد بیٹھے ہوئے لوگوں کو اس شخصیت سے آپ کے انتہائی گہرے مراسم کا احساس ہوتا ہے اور یہ چیز ترقی کے ضمن میں بہت مفید ثابت ہوتی ہے۔ بہت سے لوگ ترقی کرنے کے لئے دامے، درمے، سخنے قسم کے نسخے بھی استعمال کرتے ہیں خصوصاً کاروباری لوگوں کی اکثریت ان نسخوں پر عمل کرتی ہے اور ان کے تمام کام پوری سہولت سے ہوتے چلے جاتے ہیں جس کے نتیجے میں وہ ترقی کی منزلیں طے کرتے کرتے کہیں کے کہیں پہنچ جاتے ہیں حتیٰ کہ ان میں سے کچھ ہسپتال اور کچھ تو وقت سے بہت پہلے قبرستان تک پہنچنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ خود میں ترقی کرنے کے لئے بہت پاپڑ بیلتا ہوں مگر میرا ایک دوست ترقی کے بہت خلاف ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ترقی کی سمت متعین ہونا چاہیے۔ ایسا نہ ہو کہ ترقی کرنے کی خواہش میں زندگی آپ کو گزارنا شروع کردے۔ کھوکھلی زندگی کی سمت میں ترقی کرتے جانا زندگی کی حقیقی خوشیوں سے ہمیشہ کے لئے منہ موڑنے کے مترادف ہے۔ اَنا اور خودداری کی قربانی، عزیز و اقربا کی قربانی، اصولوں کی قربانی، اعلیٰ قدروں کی قربانی، اپنی زندگی کی باگ سیم و زر اور جاہ و حشمت کی خواہش کے سپرد کرنے کی قربانی سے ترقی کی جس منزل تک ہم پہنچتے ہیں، اس منزل کی حیثیت ایک سراب سے زیادہ نہیں ہوتی۔ میرے دوست کا کہنا ہے کہ افراد کے علاوہ جب قومیں بھی اس قسم کی ترقی کرکے سپرپاور بنتی ہیں تو اپنی ہوس کے نتیجے میں پوری انسانیت کے لئے خطرہ بن جاتی ہیں لہٰذا ترقی کرنے سے پہلے ترقی کی سمت ضرور متعین کر لینا چاہیے لیکن اگرکسی کے نزدیک ترقی کا مفہوم یہ ہے کہ وہ عقاب سے گدھ بن جائے اسے روکنے کا کوئی فائدہ نہیں کہ عقاب کے ذہن میں اس خواہش کی پیدائش ہی اسے گدھ بنانے کے لئے کافی ہے۔ میری قوم اس وقت اسی خواہش میں زندہ ہے چنانچہ وہ اپنا سردار بھی کسی بڑے گدھ کو منتخب کرتی ہے جو بستیوں کو آباد نہیں انہیں ویران دیکھنا چاہتا ہے۔ اس ترقی کی بجائے گھنٹہ گھر کی طرح ایک ہی جگہ کھڑے ہونا بہتر ہے۔