ارشاد ڈار اور نذیر احمد!

ارشاد ڈار نے اپنے ڈرائیور نذیر کو بلایا اوراس کی تنخواہ اس کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے کہا’’گن لو‘‘ پورے بیس ہزار روپے ہیں۔ نذیر نے شکریہ ادا کرکے پیسے بغیر گنے اپنی جیب میں ڈال لئے۔ رات گئے وہ اپنے تین کمروں پر مشتمل کرائے کے مکان میں واپس پہنچا جہا ں وہ اور اس کے دوبھائی اپنے اپنے اہل و عیال کے ساتھ رہتے تھے ۔ اس نے مکان کے کرائے میں سے اپنے حصے کےچار ہزارروپے اپنے بڑے بھائی کے سپردکئے، بجلی پانی اور گیس کے بلوں میں سے تین ہزار روپے اس نے ادا کرنا تھے یہ اس نے الگ کئے۔ تینوں بھائی ایک ایک ہزار روپے ماہوار راشن کی مد میں جمع کرتے تھے۔ وہ بھی اس نے الگ کئےاس نے 800روپے بچے کی بیماری کے موقع پر کسی جاننے والے سے ادھار لئے تھے۔ وہ اس نے اگلے روز اسے ادا کردیئے۔ اب اس کے پاس صرف دو تین ہزار بچے تھے جو موبائل فون اور کسی بھی ہنگامی صورتحال کیلئےتھے۔اگلے روز صبح وہ اپنے باس ارشاد ڈار کو دفتر چھوڑکر فارغ ہواتو باس نے اسے دو لاکھ کا چیک دیا کہ بینک سے کیش لے کر آؤ۔ وہ گیااور دو لاکھ روپے لے کر آگیا۔اس نے ان دولاکھ روپوں پر آخری نظر ڈالی اور مالک کے حوالے کردیئے۔ شام کو گھر واپسی پر مالک نے اسے ایک پھل کی دکان سے پھل خریدے ۔ دکاندار نے دس ہزار روپے بل بنایا اس نے رقم ادا کی اور نذیر سے چلنے کیلئے کہا!

نذیر کے باس کی کوٹھی چھ کنال میں پھیلی ہوئی تھی۔ اس میں 17 کمرے تھے جن میں سے صرف پانچ زیراستعمال تھے اور یوں 12سجے سجائے کمرے خالی پڑے رہتے تھے۔ نذیر صبح سات بجے ڈیوٹی پر آتا تھا اور گاڑیاں دھونے کے بعد صاحب کے تین بچوں کو ان کے اسکول چھوڑنے چلے جاتا تھا اور پھر صاحب کو دفترلے جانے اور لانے کے علاوہ اسے بیسیوں کام کرنا پڑتے تھے چنانچہ عموماً رات کے بارہ، ایک بجے وہ واپس گھر پہنچتا تھا۔ اسے ہفتے میں سات دن کام کرنا ہوتا تھا یعنی اتوار کی چھٹی بھی اسے نہیں ملتی تھی تاہم اس کاصاحب ایک خوش مزاج انسان تھا اور وہ اس سے ہنس کر بات کرتا تھا۔ اس نے کبھی اس کی توہین نہیں کی تھی اور نذیرکیلئے یہی کافی تھاکیونکہ اس کے ہم پیشہ بتاتے تھے کہ ان کے صاحب ان کو گندی گالیاں بھی دیتے ہیں۔ بہرحال گھرواپس پہنچنے پر اس نے پھل کی پیٹیاں ڈکی میں سے نکال کر غفورے کے سپرد کیں اور کمر سیدھی کرنے کیلئے وسیع و عریض لان میں بچھی ایک چارپائی پرلیٹ گیا۔ لیکن اسے بیگم صاحبہ کوشاپنگ کیلئے لے جانا تھا، چنانچہ کچھ ہی لمحوں بعد وہ اٹھا اورگاڑی اسٹارٹ کرکے اس کا ایئرکنڈیشنر آن کر دیا تاکہ بیگم صاحبہ اپنے ایئرکنڈیشنڈکمرے سے نکل کر کار میں بیٹھیں تو انہیں ایک ساٹمپریچر ملے۔بیگم صاحبہ نے اس روز70,70ہزار کی صرف دو ساڑھیاں خریدیں وہ بہت خوش نظر آرہی تھیں چنانچہ گاڑی میں بیٹھتے ہی انہوں نے کہاچیزیں بہت سستی ہوگئی ہیں میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی ۔ نذیر نے دل میں آہ بھرکر کہا جی بیگم صاحبہ!رات کو صاحب نے اپنے دوستوں کو کھانے پر بلایا ہوا تھا اورکھانے سے پہلے ناؤ نوش کا پروگرام بھی تھا چنانچہ جوزف چار بوتلیں گھر پہنچاگیا تھا۔ صاحب نے نذیر کو بیس ہزار روپے دیئے تھے کے باہر جوزف کو ان کی ادائیگی کردو۔ اگلی صبح صاحب نے اس کو 36 ہزارروپے دیئے کہ جاکر ان کے تین بچوں کی فیس جمع کرا آؤ۔نذیر کواس گھر میں کام کرتے ہوئے دو سال ہو چلے تھے اور بیس ہزارروپے ماہوار تنخواہ لینے والے اس شخص کی آنکھوں کے سامنے لاکھوں روپے کے لین دین ہوتے تھے اور کروڑوں کی باتیں کی جاتی تھیں جبکہ دوسری طرف اس کے بچے کارپوریشن کے اسکول کی تعلیم بھی حاصل نہیں کرسکے تھے کہ اسکول گھر سے بہت دور تھا۔ ان کے آنے جانے پر سینکڑوں روپے خرچ ہوتے تھے۔ گھر کا کوئی فرد بیمار پڑتا تھا تو دوا کی بجائے مولوی صاحب سے دعا کرائی جاتی تھی۔ ان کے لباس بار بار دھلنے سے بوسیدہ ہوچکےتھے، نذیر کے ہاں کوئی مہمان آجاتا تھا تو اسے بٹھانے کیلئے گھرمیں جگہ نہیں ہوتی تھی۔اس کے بچوں کے رنگ پیلے پڑ چکے تھے اور اسی عمر میں ان کی آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے نمودار ہونے لگے تھے۔ وہ جب صاحب کے سرخ و سفید صحت مند بچوں کو دیکھتا تو اسے اپنے بچے یاد آ تے۔ وہ جب صاحب کے گھر پھلوں کی پیٹیاں اتارتا اور دو دو تین تین بکرے بیک وقت فریزر میں اتارتا تو ایک دفعہ اس کےدل میں ہلچل ضرور مچتی مگر پھر وہ یہ سوچ کراپنے ایمان کی سلامتی کی دعائیں مانگنے لگتا کہ یہ سب خدائی کام ہیں۔ اس پر اللہ سے شکوہ نہیں کرنا چاہئے کہ مولوی صاحب نے اسے یہی بات بتائی تھی لیکن ایک دن ایسے ہوا کے اس کا بچہ سخت بیمار پڑ گیا اور جب دم درود سے بھی ٹھیک نہ ہوا تو وہ اسے ڈاکٹر کے پاس لے گیا۔ ڈاکٹر نے دو ہزار روپے کے ٹیسٹ لکھ دیئے مگر اس کے پاس تو کچھ بھی نہیں تھا۔ وہ بچے کو مرتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا تھا چنانچہ وہ اپنی عادت کے برخلاف اپنے صاحب کے پاس گیا۔ بچے کی حالت بیان کی اوران سے کچھ رقم ادھار مانگتے ہوئے کہا کہ وہ ہر مہینے اس کی تنخواہ میں سے اس کی کٹوتی کرلیا کریں۔ اسکے خوش مزاج صاحب نے پوری خوشدلی سےاس کی بات سنی اور پھر کہا نذیرے! تم تو جانتے ہو آج کل کاروبار کا برا حال ہے۔ ہاتھ تنگ ہونے کی وجہ سے میں نے اپنے ضروری خرچے بھی گھٹائے ہوئے ہیں لیکن تمہارے بچے کی زندگی بھی بہت قیمتی ہے اس کے بعد اس نے جیب سے اپنا وزیٹنگ کارڈ نکالا اور اسے تھماتے ہوئے کہا تم سرکاری اسپتال چلے جائو۔ وہاں ڈاکٹر نور الٰہی کو میرا سلام کہنا وہ سارے ٹیسٹ اسپتال سے مفت کرادے گا۔ اس شام کو جب وہ چھ گھنٹے بیمار بچے کے ساتھ اسپتال میں دھکے کھانے کے بعد رپورٹیں لے کر بچے کے ڈاکٹر کے پاس گیا تو اس نے رپورٹیں دیکھ کر کہا ان رپورٹوں میں تضاد ہے۔ یہ ناقابل اعتبار ہیں تم کسی اچھی لیبارٹری سے بچے کے ٹیسٹ کراکے لائو۔

اس دن سے نذیر خاموش خاموش سا رہنے لگا۔ پہلے وہ اخبار پر سرسری نظر ڈالا کرتا تھا اب وہ باقاعدگی سے اس کا مطالعہ کرنےلگا ہے مگر اس میں سے وہ صرف ڈاکہ زنی کی خبریں پڑھتا ہے جن میں درج ہوتا ہے کہ ڈاکو نے جب اپنے کروڑ پتی شکار کی کنپٹی پر پستول رکھا تو اس نے گھگھیاتے ہوئے کہا کہ مجھے مت مارو اس کی جگہ جو کچھ گھر میں ہے وہ سب لے جائو چنانچہ ڈاکو سیف میں سے نہ صرف لاکھوں کروڑوں کا کیش اور زیورات بھی لے جاتا ہے بلکہ بیگم صاحبہ سے آملیٹ اور چائے بھی بنواتا ہے۔ یہ خبریں پڑھتے ہوئے نذیر بے چینی سے کمرے میں ٹہلنے لگتا ہے۔