کشور ناہید!

مجھے کچھ دیر پہلے کشور ناہید کے کالموں کا مجموعہ ’’سوچ سے خوف کیوں؟‘‘ موصول ہوا جو سنگ میل پبلیکشنز نے لاہور سے شائع کیا ہے اور اس کے ساتھ ہی ایک کوریئر کمپنی کے ذریعے کراچی سے میرے محترم سینئر صحافی مظہرعباس کی طرف سے ایک نہیں تین کتابیں موصول ہوئیں ،ایک پی ایف یو جے کی ستر سالہ اس جدوجہد کی کہانی ہے جو آزادی صحافت کے لئے کی گئی ،دوسری کتاب مظہر عباس کے وقیع کالموں کا مجموعہ ’’اور پھر یوں ہوا ‘‘ کے نام سے ملی اور تیسری کتاب بہت للچادینے والی تھی ’’تین مشاعرے‘‘ نام کی کتاب حیدر آباد کے ان مشاعروں کی تفصیلات پر مبنی ہے جن کے روح رواں مظہر عباس کے عظیم والد مرزا عابد عباس تھے ان مشاعروں کی اہمیت یہ ہے کہ یہ 1959ء سے 1961ء کے دوران منعقد ہوئے اور ان میں اس دور کے عظیم شعرا جو آج بھی ادبی روشنی کے معمار سمجھے جاتے ہیں شریک ہوئے اور انہوں نے اپنی معرکتہ الآرا شاعری سنائی ،میں نے ان مشاعروں کو للچادینے والے مشاعرے اس لئے قرار دیا کہ میں اس وقت وزیر آباد کی گلیوں میں گلی ڈنڈاکھیلا کرتا تھا اور یوںیہ یادگار مشاعرے سننے سے محروم رہا!

باقی رہیں ہماری کشور ناہید اور ان کے کالموں کا مجموعہ تو کشور سے میری یاد اللہ بہت پرانی ہے وہ اس وقت پاکستان نیشنل سینٹر لاہور کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر تھیں جب میں نے ان کی انتظامی صلاحیتوں کو بہت قریب سے دیکھا وہ ایک پورا ادبی اور ثقافتی عہد تھا جس کی جھلکیاں کشور کے نیشنل سینٹر لاہور میں دکھائی دیتی تھیں سینٹر کے چھوٹے سے آڈیٹوریم میں کتنے بڑے بڑے لوگ نظر آتے تھے اور کیسے کیسے موضوعات پر تقریبات منعقد ہوتی تھیں کشور کی اپنی شخصیت بھی بہت دلکش تھی، اپنی محنت اور ادب سے بے پناہ لگائو کے حوالے سے کوئی ان سے دور جا ہی نہیں سکتا تھا چنانچہ وہ مجھے جس انداز میں مدعو کرتیں وہ بیک وقت حکم اور درخواست کی درمیانی شکل ہوتی اور یوں کسی سے انکار بن ہی نہیں پڑتا تھا۔ میں نے یہاں ان تمام شخصیتوں سے ملاقاتیں کیں جن سے مل کر زندگی سے محبت ہو جاتی ہے ۔تقریب میں کشور کے چھوٹے سے کمرے میں جتنےلوگ سما سکتے وہ سما جاتے اور پھر چائے اور گپ شپ کا سلسلہ شروع ہوتا ۔کشور کے دوستوں میں کچھ منافق بھی شامل تھےجو کشور کے ہاں لذتِ کام دہن کے بعد باہر آکر ایسی باتیں بھی کرتے جو بالآخر کشور تک پہنچ جاتیں مگر کشور کا دل بڑا ہے وہ انہیں جلی کٹی سنانے کے بعد دوبارہ شیرو شکر ہو جاتیں۔ اس زمانے میں کشور کا صرف دفتر ہی نہیں اقبال ٹائون میں اس کا گھر بھی دوستوں کے لئے اپنے بازو واکئے رکھتے مجھے بھی ایک دو دفعہ ان کی پارٹیوں میں شرکت کا موقع ملا ،میں تو ’’پیاسا‘‘ ہی وہاں سے لوٹا مگر ان محفلوں کی لذت آج بھی مجھے یاد ہے ۔

کشور نے پاکستان سینٹر کے علاوہ بعض دوسرے محکموں میں بھی اپنی اعلیٰ ترین انتظامی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا اب وہ سرکاری ملازمت سے ریٹائر ہو چکی ہیں اسلام آباد میں مقیم ہیں وہاں بھی احباب کی دعوتوں کا سلسلہ جاری ہے اور مجھے بھی اس میں شرکت کا موقع ملا ہے ۔کشور ان دنوں دو کام کر رہی ہیں ایک جنگ میں کالم نویسی اور دوسرے پاکستان کے دور دراز علاقوں میں جاکر گھریلو دستکاریوں کے اعلیٰ ترین نمونوں کی تلاش ،اس کے ساتھ ساتھ روز اول سے خواتین کے حقوق کے لئے جدوجہد کرتی نظر آتی ہیں چنانچہ اب ان حلقوں میں انہیں ’’کشور آپا‘‘ کہا جاتا ہے ۔کشور بہت ہمدرد خاتون ہیں انہوں نے ان ادیبوں کی بھرپور مدد کی جو پاکستان کے سرمایہ تھے مگر ان کے پاس ایک کٹیا بنانے کے لئے بھی سرمایہ نہیں تھا ۔اس حوالے سے میں بھی جو کچھ کرسکتا تھا کیا مگر ایک افسوسناک بات سامنے آئی کہ ان غیور ادیبوں کی اولاد تقریباً بھکاری بن گئی ،میں نے کشور کے ساتھ پاکستان اور ہندوستان میں بہت مشاعرے پڑھے ہیں میں، ان کی ہمت دیکھ کر حیران رہ جاتا تھا وہ ہمیشہ سے باہمت خاتون رہی ہیں اللہ ان کی محبت اور حوصلہ اسی طرح بلند رکھے ۔

باقی رہی کشور کے کالموں پر مشتمل ان کی حالیہ کتاب تو میں ان میں سے زیادہ تر پہلے ہی پڑھ چکا ہوں صاف ستھری نثر اور کھری بات بلا کسی خوف کے کہنا ان کا وہ وطیرہ ہے جو ان کے کالموں میں بھی نظر آتا ہے میرے ذاتی خیال میں ،میں ایک بہت بڑا کالم نگار ہوں اور ہند سندھ میں میرے کالموں کا شہرہ ہے، میرے سامنے آرٹ بکوالڈ کیا بیچتا ہے مگر حاسد لوگ بھی کب کسی کی عظمت مانتے ہیں مگر اس سے کیا فرق پڑتا ہے کشور ناہید میں آپ کو یہ سند عطا کر رہا ہوں کہ آپ کالم نگاروں کے ہجوم میں واحد کالم نگار ہو کہ میرے بعد اگر کسی کا نمبر آتا ہے تو وہ آپ ہی کا ہے ۔