خیال سے زندگی، خیال سے موت!

میرے ایک بزرگ ہیں جن کی عمر اس وقت ماشاء اللہ100سال ہے۔ وہ جہاں رہتے ہیں ان کے اردگرد سو کلومیٹر کے علاقے میں بھی کوئی جوان یا ادھیڑ عمر شخص فوت ہوتا ہے تو عورتیں کف افسوس ملتے ہوئے کہتی ہیں”وہ بڈھا ابھی تک زندہ ہے اور یہ بیچارا مرگیا ہے“ اوپر سے اس بزرگ کی بزرگانہ عادتوں سے اس کے گھر والے بھی تنگ ہیں۔ منہ سے تو کچھ نہیں کہتے لیکن یہ بزرگ ذرا سے بھی علیل ہوں تو گھروالے گورکن کو قبر کی تیاری کا کہہ آتے ہیں اور غسال کو ”اسٹینڈ بائی“ کردیتے ہیں بلکہ اگر دیکھیں کہ وہ صحت یاب ہورہے ہیں تو انہیں”ڈی مورالائز“ کرنے کے لئے ان کے سرہانے سورۃ یسیٰن کی تلاوت کرنے لگتے ہیں۔ اس کے علاوہ محلے کے لوگ بھی جب اس سو سالہ بزرگ کو اپنے درمیان اپنے قدموں پر چلتے پھرتے دیکھتے ہیں تو ان میں سے جو چالیس پچاس کی عمر میں ہیں، گوڈے گٹوں سے رہ گئے ہوتے ہیں انہیں حاسدانہ بلکہ معاندانہ نظروں سے دیکھتے اور کہتے ہیں”اس بڈھے نے تو شاید سانپ کھائے ہوئے ہیں“ یہ باتیں ان بزرگ تک ایک دوسرے بزرگ پہنچاتے رہتے ہیں اور پھر دونوں سر جوڑ کر بیٹھ جاتے ہیں کہ اس طویل عمری کا کیا کیا جائے؟ اور پھر اس فیصلے پر پہنچتے ہیں کہ مرنا ہے تو اپنے وقت پر مریں گے، ”شریکوں“ کی خوشی کے لئے رضاکارانہ وفات نہیں پائیں گے۔

آپس کی بات ہے کہ اس بزرگ کی طویل العمری سے میں بھی جلا بیٹھا ہوں چنانچہ ایک روز یہ بزرگ میرے پاس آئے، حال پوچھا تو میں نے کہا”ویسے تو ٹھیک ہوں، بس ذرا گھٹنوں میں درد رہتا ہے اور چین اسموکنگ کی وجہ سے سانس پھول جاتا ہے آپ اپنی سنائیں آپکا کیا حال ہے؟“ میرا خیال ہے اس دن وہ کوئی اسٹرٹیجی طے کرکے آئے تھے بولے”کیا بتاؤں بس زندگی کے دن پورے کررہا ہوں ،دیکھنے میں بھلا چنگا ہوں لیکن ایک ہزار ایک بیماریاں چمٹی ہوئی ہیں، بلڈ پریشر ہے، شوگر ہے، کولیسٹرول بہت ہائی ہے، ہارٹ کا بھی مریض ہوں، مسلسل بخار رہتا ہے، دو ماہ سے ڈائیریا ٹھیک ہونے میں نہیں آرہا“ یہ سن کر دل کو کافی طمانیت محسوس ہوئی میں نے کہا”باقی امراض کا تو علاج ہے البتہ آخر میں آپ نے جو دو علامتیں یعنی مسلسل بخار اور مسلسل ڈائیریا کا ہونا یہ ذراتشویشناک ہیں“ پوچھا”وہ کیوں؟“ میں نے کہا” یہ ایڈز کی علامتیں ہیں“ اس پر وہ بزرگ بہت خوش ہوئے اور بولے ”واقعی؟“ ان کی خوشی سے میری ساری امیدوں پر اوس پڑگئی اور میں نے سوچا موصوف تو مایوس ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے چنانچہ میں نے بے دلی سے کہا”ہاں ایسے ہی ہے“ اس پر موصوف بولے”گویا میرے چل چلاؤ کا وقت ہے“ ان کے اس جملے سے میرے دل میں ایک بار پھر امید کی ایک کرن نمودار ہوئی، میں نے کہا”بالکل بس اب آپ دوا دارو چھوڑیں، بستر سے لگ جائیں اور موت کا انتظار کریں“ یہ سن کر انہوں نے ایک بھرپور قہقہہ لگایا اور بولے”تم میری ساری مفروضہ بیماریاں سن کر خوش ہوگئے؟ لیکن اب یہ بھی سنو، ان میں سے الحمدللہ ایک بیماری بھی میرے پاس تک نہیں پھٹکی، میں اب بھی تم ایسوں سے زیادہ صحت مند اور تگڑا ہوں۔ یقین نہیں تو آؤ بینی پکڑ کر دیکھ لو“ اور پھر انہوں نے اپنی کہنی میز پر ٹکا کر میرا ہاتھ آہنی گرفت میں لے لیا۔

اس روز یہ بزرگ مجھے کافی ہٹ دھرم لگے۔ میں نے محسوس کیا کہ موصوف حوصلہ ہارنے والے نہیں ہیں ورنہ ایسا تو ممکن ہی نہیں کہ سو سال کی عمر میں بھی کوئی شخص سو فیصد تندرست اور توانا ہو، انہیں بھی ضرور کوئی نہ کوئی عارضہ لاحق ہوگا لیکن ان کی نظر اس عارضے پر فوکس ہو کر نہیں رہ گئی بلکہ ان کی نظر دوسری امید افزا چیزوں پر بھی ہے چنانچہ میں نے تہیہ کرلیا کہ موصوف کو ان کی زندگی سے بیزار کرکے ہی دم لوں گا۔ اس کے لئے میں نے اپنے ہمدم دیرینہ غمگین سلیمانی کی مدد حاصل کی جو ایک عرصے سے موت کی پیش گوئیاں اور لوگوں کو اس کے لئے ذہنی طور پر تیار کرنے میں اپنی تمام تر ذہنی صلاحیتیں بروئے کار لا رہے ہیں چنانچہ میری درخواست پر انہوں نے روزانہ بزرگ موصوف کی طرف جانا شروع کردیا۔ ایک روز یہ ان کی طرف گئے اور کہا ”خیر تو ہے آج آپ کا رنگ کچھ پیلا پیلا سا لگ رہا ہے“ مگرپریشان ہونے کی بجائے بزرگ نے قہقہہ لگا کر کہا”دراصل یہ موسم سرسوں پھولنے کا ہے آپ کو ان کی خوبصورت پیلاہٹ کا عکس میرے چہرے پر نظر آیا ہوگا“ اور پھر انہوں نے ایک ٹھنڈی سانس بھری اور سرسوں پھولنے کے حوالے سے ایک عشقیہ شعر پڑھا، اس مرحلے سے مایوس گزرنے کے بعد غمگین سلیمانی اگلے روز ان کے پاس قبروں کی ایک کیٹلاک لے کر گئے اور کہا”اللہ تعالیٰ آپ کو لمبی عمر عطا کرے لیکن کچھ کام اپنی زندگی ہی میں کر لیناچاہئیں ،یہ کیٹلاگ ہے اس میں سے کوئی خوبصورت سی قبر کا ڈیزائن آپ پسند کریں تاکہ آپ کے لواحقین آپ کے لئے آپ کی پسندیدہ آخری آرام گاہ تعمیر کرسکیں۔ بزرگ نے بڑے سکون سے ایک قبر پر انگلی رکھی اور کہا”یہ ڈیزائن مجھے بہتر لگتا ہے لیکن پتہ کریں اس میں ائیر کنڈیشن کی گنجائش ہے کہ نہیں؟“ اس پر غمگین کا آزردہ ہونا فطری تھا لیکن انہوں نے ہمت نہیں ہاری اور اگلے روز خواجہ اسلام کی کتابیں”موت کا منظر،مرنے کے بعد کیا ہوگا“ وغیرہ لے کر ان کے پاس گئے، ان کتابوں میں ایک نسخہ فانی بدایونی کے کلام کا بھی تھا۔ بزرگ موصوف نے ان خوبصورت تحفوں پر غمگین سلیمانی کا شکریہ ادا کیا اور کہا”میں یہ کتابیں ضرور پڑھوں گا اور ان میں جو اچھی باتیں ہوں گی، انہیں اپنے دل میں جذب بھی کروں گا لیکن ایک بات آپ کو ضرور بتانا چاہتا ہوں“غمگین نے پوچھا” وہ کیا؟“ بزرگ نے کہا وہ یہ کہ آپ مجھے مسلسل مایوس کرنے کی کوششوں میں مشغول ہیں لیکن یاد رکھیں کہ میں فرد واحد نہیں ،پاکستانی قوم کے عزم اور حوصلے کی ایک چلتی پھرتی علامت بھی ہوں جسے اس کے تجزیہ نگار موت کی خبریں سناتے رہتے ہیں لیکن آپ انہیں بھی بتادیں اور آپ خود بھی سن لیں کہ ہم مایوس ہونے والوں میں سے نہیں ہیں، قومیں اس وقت تک زندہ رہتی ہیں جب تک خوبصورت مستقبل کا خواب ان کی آنکھوں میں زندہ رہتا ہے، آپ یہ خواب ان سے چھین لیں وہ موت کے سامنے ہتھیار ڈال دیں گی“۔ یہ سن کر غمگین سلیمانی کی آنکھوں میں آنسو آگئے اس نے آسمان کی طرف دیکھا اور کہا”باری تعالیٰ ہماری قوم کو کیا ہوگیا ہے یہ میری طرح مایوس اور غمگین کیوں نہیں ہوتی، اس کے جواب میں انہیں ایک قہقہہ سنائی دیا، یہ قہقہہ بزرگ موصوف کا تھا، انہوں نے مایوسی کی اتھاہ گہرائیوں میں گرے غمگین سلیمانی کو مخاطب کیا اور کہا ”جانے سے پہلے جوگی جہلمی کا یہ شعر بھی سنتے جاؤ

زندگی تے موت جوگی دونوں ایں کوئی چیز نئیں

خیال نال موت اے خیال نال زندگی

زندگی اور موت دونوں کوئی چیز نہیں ہیں بلکہ خیال سے زندگی اور خیال سے موت ہے۔