منکہ مسمّی ایک عالم فاضل

ان دنوں میں بہت عالم فاضل ہوگیا ہوں میں، اپنے آفس میں ہوں اور میرے گرد کتابوں کا ڈھیر لگا ہے، اصغر ندیم سید کا نیا ناول ’’جہاں آباد کی گلیاں‘‘، اردو اور سرائیکی کے ممتاز ادیب حفیظ خان کا ’’حیدر گوٹھ کا بخشن‘‘ طارق نعیم کے شعری کلیات،غافر شہزاد کا ’’استغاثہ‘‘ طارق بلوچ کا ’’کتبے سے تراشی زندگی‘‘ عقیل عباس جعفری کی مرتبہ ایک دلچسپ کتاب جس میں نامور ادیبوں کےوہ مضامین یکجا کردیئے گئے ہیں جو انہوں نے اپنی وفات پر پیشگی لکھ دیئے تھے۔ شاہدہ دلاور شاہ کا ناول ’’زندگی ایک ناراض متن‘‘،سینیٹر عرفان صدیقی، جو نامور لکھاری ہیں کالم نویس بھی اور بہت پختہ شاعر بھی ،کا پہلا شعری مجموعہ ’’گریز پا موسموں کی خوشبو‘‘، سابق وزیراعظم نواز شریف کے سابق پرنسپل سیکرٹری فواد حسن کا بھی پہلا شعری مجموعہ’’ کنج قفس‘‘ جو انہوں نے پوری پامردی سے جیل میں دو سال گزارنے کے دوران مکمل کیا، ممتاز صحافی جمیل اطہر قاضی کی یادداشتوں پر مشتمل تیسری جلد اور نامور ڈرامہ نگار اور افسانہ نگار یونس جاوید کی کہانیوں کا مجموعہ ’’پل صراط کے بعد‘‘ کے علاوہ بے شمار کتابیں میرے ارد گرد دھری ہیں اور یہ عالم فاضل شخص اس عزت افزائی پر فخر محسوس کررہا ہے۔

یہ تو وہ کتابیں ہیں جن میں سے کچھ مکمل طور پر اور کچھ جستہ جستہ میں نے پڑھی ہیں چنانچہ میں ان کے بارے میں پورے اعتماد کے ساتھ بات کرسکتا ہوں تاہم ان کے علاوہ بے شمار کتابیں جو مجھے تحفہ میں ملی ہیں۔ اگرچہ پڑھ نہیںسکا مگر میں ان کے بارے میں زیادہ اعتماد اور یقین کے ساتھ گفتگو کرنے کا اہل ہوںکہ آخر تجربہ بھی تو کوئی چیز ہے۔ چنانچہ مجھے ان دنوں کسی مصنف کا فون آتا ہے جس کی نئی کتاب آنے والی ہے وہ مجھ سے اس کا فلیپ لکھوانا چاہتا ہے اور پوچھتا ہے کہ کتاب کس پتے پر ارسال کروں، میں کہتا ہوں کتاب ارسال کرنے کی ضرورت نہیں، آپ صرف کتاب کا نام بتا دیں، میں فلیپ بھیج دوں گا کہ آخر میں آپ کا پرانا قاری ہوں، چنانچہ میں جب اسے فلیپ ارسال کرتا ہوں تو اس کا انتہائی ممنونیت بھرا فون آتا ہے اور وہ کہتا ہے کہ سر آپ نے میری کتاب کو جتنا سمجھا ہے اور پرکھا ہے اس سے پہلےکوئی بڑے سے بڑا نقاد بھی اس کے معانی کی تہہ تک نہیں پہنچ سکا، ظاہر ہے ان دوستوں کی محبت اور اللّٰہ کی دین ہے ورنہ من آنم کہ من دانم، میں ان دوستوں کے حسنِ ظن پر صرف ان کا شکریہ ہی ادا کرسکتا ہوں۔

صرف یہی نہیں مجھے ان دنوں بہت سی کتابوں کی تقریب رونمائی کی صدارت بھی کرنا پڑتی ہے، طویل عمری کی وجہ سے سینئر جو ہو چکا ہوں چنانچہ اپنے صدارتی خطبے میں میں ایسی لمبی لمبی چھوڑتا ہوں کہ مصنف میری تقریر کے دوران احساس ممنونیت کے سبب آبدیدہ ہو جاتا ہے۔ وہ تقریب کے اختتام پر میرے پاس آتا ہے اور جن لفظوں میں میرا شکریہ ادا کرتا ہے کہ اس کے نتیجے میں ، میں اس بار آبدیدہ ہو جاتا ہوں۔ ان میں سے کچھ مصنفین نے اپنی کتابوں کا اسٹال بھی لگایا ہوتا ہے جہاں سے لوگ ان کی کتاب چوم چاٹ کر اپنے ساتھ لے جاتے ہیں، چنانچہ تقریب ہی میں اعلان ہوتا ہے کہ کتاب کی بے پناہ مقبولیت کے سبب اس کا پہلا ایڈیشن ابھی ابھی ہاتھوں ہاتھ نکل گیا ہے۔ جن سامعین کے ہاتھ اس دفعہ کتاب نہیں آئی وہ دوسرے ایڈیشن کا انتظار فرمائیں۔

تاہم بعض کتابیں بہت اعلیٰ درجے کی ہوتی ہیں اور مجھے واقعی بہت پسند آئی ہوتی ہیں چنانچہ ان کا فلیپ لکھنا خود میرے لئے باعث فخر ہوتا ہے، میں بہت مسرت محسوس کرتا ہوں کہ ایک اچھی کتاب پر مجھے کچھ لکھنے کی سعادت نصیب ہوئی اور یقین کریں ابھی اردو ادب کا دامن ایسی کتابوں سے خالی نہیں ہوا۔ ہمارے درمیان اعلیٰ درجے کے شاعر، افسانہ نگار اور ادیب موجود ہیں بلکہ خواتین رائٹر بھی ہمیں اعلیٰ درجے کے ادب پارے عطا کر رہی ہیں۔ فیصل آباد کی نیلوفر اقبال صف اول کی کہانی کار ہیں، ان کا ایک انتہائی اعلیٰ درجے کا ناول چند سال پیشتر شائع ہوا تھا اس ناول پر اگر ہمارے مستند نقادوں کی نظر پڑی ہوتی تو اس وقت ہر طرف اس کے ڈنکے بج رہے ہوتے، مگر مجھے یقین ہے کہ مستقبل کا ادبی مورخ اس ناول کو کبھی نظر انداز نہیں کر سکے گا۔

مجھے محسوس ہوا ہے کہ یہاںتک آتے آتے کالم کچھ بوجھل ہوگیا ہے، چنانچہ مجھے ظہور نظر مرحوم یاد آگئے ہیں، اعلیٰ درجے کے شاعر، اور پرلے درجے کے بذلہ سنج، ایک مشاعرے میں موصوف موجود تھے۔ اسٹیج سیکرٹری نے کسی شاعر کو بلانے کے لئے لمبے چوڑے تعریفی کلمات ادا کئے، ابھی ان صاحب کی بات نامکمل تھی کہ ظہور نظر اپنی نشست سے اٹھے اور مائیک کی طرف جانے لگے۔ اس پر ناظم مشاعرہ نے کہا ’’ظہور صاحب ابھی آپ تشریف رکھیں، میں کسی اور صاحب کو بلانےجا رہا ہوں‘‘۔ یہ سن کر ظہور نظر نے کہا ’’اچھا، مگر آپ نے یہ کلمات ایک گزشتہ مشاعرے میں میرے لئے ادا کئے تھے‘‘۔