میرا شک یقین کے برابر ہے!

میں نے آپ کو ایک بار بتایا تھا کہ اسکول میں میرا میٹرک کے دوران ایک استاد سے پالا پڑا تھا، جن کی طبیعت میں شک بہت زیادہ تھا۔ وہ جب کلاس میں داخل ہوتے تو ہم لوگ ان کے والہانہ استقبال کے لئے حسب معمول شور مچارہے ہوتے۔ وہ چھڑی ہاتھ میں پکڑتے اور کلاس سے پوچھتے ’’کون شور مچا رہا تھا‘‘ شور تو پوری کلاس مچا رہی ہوتی تھی، بس ہم میں سے کوئی ایک اپنے کسی کلاس فیلو کی طرف اشارہ کرکے کہتا ’’سر یہ شور مچا رہا تھا‘‘جس پر وہ چھڑی لے کر اس پر پل پڑتے اور کہتے جاتے ’’مجھے پہلے ہی اس پر شک تھا‘‘ہمارا یہ کلاس فیلو سپورٹس مین اسپرٹ کا مظاہرہ کرتے ہوئے دو چار چھڑیاں کھاتا اور پھر کہتا’’سر میں نہیں، وہ تھا‘‘ اس لمحے وہ جس کلاس فیلو کی طرف اشارہ کرتا، ہمارے یہ ماسٹر صاحب اس پر چڑھائی کردیتے اور کہتے جاتے ’’مجھے پہلے ہی اس پر شک تھا‘‘ جب ہمارے اس کلاس فیلو کا ’’کوٹا‘‘ پورا ہو جاتا تو وہ کسی دوسرے اور دوسرا کسی تیسرے اور تیسرا کسی چوتھے کی طرف اشارہ کرتا اور چونکہ ہمارے ماسٹر جی کو ان پر بھی پہلے سے شک تھا چنانچہ وہ باری باری ان کا رخ کرتے اور اس ’’جسمانی ریمانڈ‘‘ کے دوران پیریڈ ختم ہو جاتا تھا۔ دراصل ان صاحب سے پڑھنے پر ہم لوگ بید کھانے کو ترجیح دیتے تھے۔

اسکول سے فارغ ہونے کے بعد زندگی کے مختلف مراحل میں مجھے ایسے ہی کئی حضرات سے پالا پڑتا رہا۔ ایک صاحب جب کبھی مجھ سے ملتے ،پوچھتے آج آپ نے جو کالم لکھا ہے، آپ کا اشارہ کس طرف ہے، میں کہتا سیدھا سادہ کالم ہے اس میں کسی کی طرف اشارہ نہیں ہے، وہ کہتے ’’میرا خیال ہے کل محلے کے دکاندار سے اس کابل ادا کرنے کے حوالے سے میرا جھگڑا ہوا تھا اور اس نے میرے محلے داروں کے سامنے میری جو بے عزتی کی تھی آپ کا کالم اسی موضوع پر تھا۔ ان کے اس قسم کے شکوک سن کر میں ہر مرتبہ سر پکڑ کر بیٹھ جاتا تھا۔ میں دوسروں کے بارے کیا کہوں میرا اپنا یہ عالم ہے کہ جب میرا بائیاں بازو درد کرتا ہے یا سینے میں معمولی سا درد ہوتا ہے مجھے شک پڑتا ہے کہ مجھے ہارٹ اٹیک ہوا ہے اور جب میں دو پینا ڈول کھا لیتا ہوں اور درد تھم جاتا ہے تو میں خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ ہارٹ اٹیک کے باوجود بچ گیا ہوں،صرف یہی نہیں بلکہ جب میں اخبار میں یا ٹی وی پر کسی ڈاکٹر کی گفتگو پڑھتا یا سنتا ہوں تو مختلف امراض کی جو نشانیاں اس نے بتائی ہوتی ہیں مجھے شک گزرتا ہے کہ ان میں سے ہر بیماری مجھے لاحق ہے، چنانچہ اس کے بعد ڈاکٹر تسنیم ریاض، ڈاکٹر مسعود صادق، ڈاکٹر مجتبیٰ صدیقی، ڈاکٹر غیاث الحسن کے علاوہ دنیا کے ہر مرض کے معالج کے چکر لگاتا رہتا ہوں، دنیا بھر کے ٹیسٹ کرواتا ہوں اور جب سب ٹیسٹ صحیح نکلتے ہیں تو سخت غصہ آتا ہے کہ پیسے ضائع ہوئے۔

یہ معاملہ یہیں تک محدود نہیں ہے بلکہ اس کی سرحدیں مشرق سے مغرب تک پھیلی ہوئی ہیں۔ مثلاً مجھے شک ہے کہ اسلام کے نام پر بنا ہوا ہمارا پاکستان محض اس لئے قعرِ مذلت میں گرا پڑا ہے کہ ہماری وہ دعائیں قبول نہیں ہوتیں جو ہم مسجد میں پانچ وقت اور روزوں کے مہینے میں دن رات اپنے اللہ سے گڑ گڑا کر مانگتے ہیں کہ یاباری تعالیٰ امریکہ ہماری ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے، اسے تباہ و برباد کردے۔ میں خود بہت سے غریبوں، مسکینوں کو رزق کی کشادگی کے لئے مختلف وظیفے بتاتا ہوں، بے روزگاروں، بیماروں، یتیموں، بیوائوں اور ان کے علاوہ زندگی کے ہر مسئلے پر ان کی اسی طرح رہنمائی کرتا ہوں، مگر میرا اللہ نہ میری سنتا ہے اور نہ ان کی جن کی مدد وظیفے بتا کر کرتا ہوں۔ اللہ سے میرے یہ گلے شکوے سن کر میرا ایک ہمسایہ عجیب عجیب باتیں کرتا ہے اور کہتا ہے دنیا کے ترقی یافتہ ممالک جن کےعوام کواپنی کسی ضرورت کے لئے کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلانا پڑتا اور اس کے علاوہ یہ قومیں زندگی کے ہر شعبے میں اوجِ ثریا تک پہنچنے کو ہیں، یہ کون سے وظیفے پڑھتی ہیں۔ انہوں نے تو مذہب اور امور سلطنت کے درمیان ایک ایسی لکیر کھینچ دی ہے جسے پادری پار ہی نہیں کرسکتے، میرا یہ ہمسایہ مولانا حالیؔ کا یہ شعر بھی سناتا ہے۔

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی

نہ ہو جس کو خیال خود اپنی حالت کے بدلنے کا

یہ صاحب مجھے قرآن کی ایک آیت بھی سناتے ہیں جس کا مفہوم یہ ہے کہ انسان کو وہی کچھ ملتا ہے جس کے لئے وہ کوشش کرتا ہے۔

میں ایک عرصے سے ان صاحب کی اس نوع کی باتیں سنتا رہتا ہوں اور ہر بار کانوں کو ہاتھ لگا کر اللہ سے معافی مانگتے ہوئے کہتا ہوں کہ میرا اس کی اس گفتگو سے کوئی تعلق نہیں، میری طرف سےچاہے اسے الٹا لٹکا دیں۔ دراصل میں جو شک کی بات کر رہا تھا میرا ہمسایہ واحد شخص نہیں جو ایسی باتیں کرتا ہے، بلکہ جدید علوم جو مسلمانوں کو گمراہ کر رہے ہیں ان کا کام ہی ذہنوں میں تشکیک کا زہر گھولنا ہے حالانکہ میرے ایک مرشد ثابت کر چکے ہیں کہ زمین ساکن ہے مگر یہ لوگ کہتے ہیں زمین ساکن نہیں چاند کےگرد گھومتی ہے۔ ذہنوں میں یہ شک بھی انڈیلا جا رہا ہے کہ کائنات یکدم وجود میں نہیں آئی تھی بلکہ یہ عمل بتدریج ہوا تھا۔ اسے نظریہ ارتقا کا نام دیا جا رہا ہے، انسان کے جدِ امجد کے بارے میں بھی گمراہ کن باتیں کی جا رہی ہیں بلکہ اور تو اور اللہ کے ہونے یا نہ ہونے کے حوالے سے بھی ذہنوں میں شکوک پیدا کئے جا رہے ہیں۔ ان گمراہ لوگوں کا ساتھ اسلامی اسکالر بھی دے رہے ہیں جو ان کے نظریات کا جواب ہاں اور ناں کے درمیان دیتے ہیں۔ مجھے شک ہے یہ بھی انہی میں سے ایک ہیں۔ وما علیناالالبلاغ۔