اب ایک اور بکرا!

گزشتہ روز میں بھی بکرا خریدنے گھر سے نکلا ایک جگہ مجھے بکروں کا بہت بڑا ہجوم نظر آیا ،اس اثنا میں میری نظر ایک بکرے پر پڑی جو مسلسل میری طرف دیکھ رہا تھا وہ شاید مجھے پہچاننے کی کوشش کر رہا تھا اسے غالباً شبہ تھا کہ یہ وہی شخص ہے جو ہر سال بکرا خریدنے گھر سے نکلتا ہے اور پھر انہیں ٹٹول ٹٹال کر واپس چلا جاتا ہے ۔ چنانچہ مجھے اس کی آنکھوں میں نہ صرف یہ کہ خاصی ہمدردی نظر آئی بلکہ وہ اپنے مالک سے آنکھ بچا کر آہستہ آہستہ چلتا ہوا میرے قریب آ گیا اور پھر بلاوجہ دانت نکالنے لگا ،تاہم یہ احساس تو مجھے بعد میں ہوا کہ وہ بلاوجہ دانت نہیں نکال رہا تھا بلکہ اس بہانے وہ مجھے اپنے دانت دکھا کر یہ ثابت کرنا چاہتا تھا کہ وہ دوندا ہے اور یوں قربانی کے قابل ہے اس کی اس حرکت کی ایک اور وجہ بھی مجھے اس وقت سمجھ آئی جب مجھے بکرے کے قریب پاکر ریوڑ کا مالک میرے پاس آیا اور میرے استفسار کے بغیر بولا 70ہزار میں نے جیب میں ہاتھ ڈالا کل رقم 30ہزار چھ سو روپے پر مشتمل تھی، میں نے بکرے کے بارے میں ناپسندیدگی کا اظہار کیا جس کا بکرےنے یہ سوچ کر برا مانا ہو گا کہ اس شخص نے میری انسانی ہمدردی کی قدر نہیں کی، یہ بکرا خاصا دور اندیش ہی تھا کیونکہ اس دوران ایک بڑی توند والے شخص کو ایک لمبی کار میں سے اترتے دیکھ کر اس نے دُڑکی لگا دی اور ریوڑ میں گم ہو گیا ۔میں جس سڑک پر کھڑا تھا یہ ساری سڑک بکروں سے ’’لبریز‘‘ تھی جدھر نظر اٹھتی تھی بکرے ہی بکرےنظر آتے تھے میری نظر ایک اور بکرے پر پڑی مگر میں نے محسوس کیا کہ وہ مجھ سے پہلے مجھے دیکھ رہا ہے صرف یہی نہیں بلکہ میں نے یہ اندازہ بھی لگایا کہ پہلے بکرے کی طرح وہ بھی جان قربان کرنے کا خواہشمند نظر آ رہا ہے ،میں نے سوچا اب اس عمر میں کوئی بکرا ہی مجھ پر دل وجان نثار کر سکتا ہے یہ خیال کافی اداس کرنے والا تھا، ممکن ہے میری یہ اداسی کی کیفیت خاصی دیر تک برقرار رہتی کہ اچانک اس نے مجھے مخاطب کیا اور کہا تم بکرا خریدنے آئے ہو یا یونہی ارد گرد کھڑے لوگوں پر’’ ٹہور ٹہکا‘‘ جمانے کا ارادہ ہے،اللہ جانے مجھے یہ بکرا کیوں ہمدرد قسم کا ’’انسان‘‘ لگا ،میں نے کہا برادرم بات یہ ہے کہ گھر سے تو بکرا خریدنے ہی کے ارادے سے نکلا ہوں مگر میرے پاس پیسے کم ہیں بولا ’’کتنے پیسے ہیں تمہارے پاس ‘‘میں نے اسے بتایا میرے پاس تیس ہزار چھ سو روپے ہیں اس پر وہ کچھ پریشان نظر آیا مگر پھر کچھ دیر بعد مجھے اس کے چہرے پر خوشی کی رمق نظر آئی ۔اس نے مجھے مخاطب کیا اور کہا ’’پیسے تو تمہارے پاس دوچار مرغیاں خریدنے کے ہیں لیکن تم فکر نہ کرو ‘‘میں نے پوچھا’’ فکر کیسے نہ کروں۔‘‘اس نے کہا ’’میں ابھی لنگڑا کر چلنا شروع ہو جاتا ہوں تمہیں پتہ ہے لنگڑے بکرے کی قربانی جائز نہیں مگر تم مالک سے کہنا کہ مجھے یہ بکرا منظور ہے مگر اس کے صرف تیس ہزار دوں گا یقین کرو وہ فوراً مان جائے گا بلکہ وہ شکر کرے گا کہ اس کا داغی مال بک گیا ‘‘یہ کہتے ہوئے اس نے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں اور بولا ’’مگر میری ایک شرط ہے ‘‘میں نے پوچھا’’ وہ کیا۔‘‘اس نے کہا ’’یہی کہ عید کے روز تم نے نماز سے فارغ ہوتے ہی مجھے ذبح کر ڈالنا ہے میں زندہ نہیں رہنا چاہتا۔‘‘

میں اس کی یہ بات سن کر پریشان ہو گیامیں نے پوچھا’’ تم زندگی سے اتنے بیزار کیوں ہو۔‘‘کہنے لگا ’’مہنگائی نے پریشان کیا ہوا ہے ونڈ بہت مہنگا ہو گیا ہے اور چراگاہیں پانی نہ ہونے کی وجہ سے بنجر ہو گئی ہیں تم یقین کرو میں کئی دنوں سے فاقے سے تھا اب دو چار دن سے مالک ہمیں کھانے کیلئے کچھ دے دیتا ہے تاکہ گاہک ہماری حالت دیکھ کر واپس نہ جائے ایسے جینے کا فائدہ جب جینے کا سامان ہی نہ رہے!‘‘

مجھے اپنے آپ میں اور اس بکرے میں بہت مماثلت نظر آئی فرق اگر تھا تو صرف یہ کہ مجھے معاشرے میں اپنی آن بان قائم رکھنے کیلئے گھر کی بے سروسامانی کے باوجود ظاہر داری پر کچھ نہ کچھ خرچ کرنا پڑتا ہے۔دراصل اس کے اور میرے درمیان میں یہی فرق تھا کہ وہ لوئر کلاس کا تھا جبکہ میرا تعلق لوئر مڈل کلاس سے تھا لوئر کلاس والے مرنے مارنے پر تل جاتے ہیں اور لوئر مڈل کلاس والوں میں نہ مرنے کی ہمت ہوتی ہے اور نہ وہ کسی کو مارنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ میں نے اس کی بتائی ہوئی ترکیب پر عمل کیا اور ریوڑ کے مالک کو رقم ادا کرکے بکرے کے گلے میں رسی ڈالی اور اسے گھسیٹتا ہوا سوزوکی وین کی طرف چل پڑا یہ خصی بکرا تھا اور خصی خواہ بکرا ہو یا قوم اس کا انجام یہی ہوتا ہے۔

اور اب آخر میں حامد عتیق سرور کی ایک بالکل منفرد اور حیران کر دینے والی افسردگی تلے دبی شگفتہ غزل:

ہوں سخن آشناپر نہیں با وفا ،جب بھی پکڑا گیا، میں نے غزلیں کہیں

یار غصے میں دشنام بکتا رہا ،میں نے ترلا کیا ،میں نے غزلیں کہیں

نازنیں کا جنم دن منایا گیا ،چار عاشق تھے سب کو بلایا گیا

اک نے پیسے دیئے، اک نے تحفہ دیا، اک نے دھوکہ دیا، میں نے غزلیں کہیں

لوگ کہتے رہے ،جو لکھا فیض نے ،جو کہا میر نے، بس وہی کچھ سنا

مجھ کو ابلیس نے کان میں یہ کہا ، اپنی بک بک سنا، میں نے غزلیں کہیں

ملک پر جب بھی غاصب نے قبضہ کیا، آپ لڑتے رہے، آپ کا حوصلہ

میں تھا مارا ہوا تنگی رزق کا، سو قصیدہ لکھا، میں نے غزلیں کہیں

عشق دو ہی ملے ،میں نے دونوں کئے ،ایک لاہور میں، اک کراچی کیا

میں تھا پنجاب کا، پھر مہاجر ہوا، میں نے ماہیا لکھا، میں نے غزلیں کہیں

گھر کے باہر زمستاں کی خاموشیاں، اور من میں محبت کی سرگوشیاں

لوگ ایسے ہی کرتے ہیں مے نوشیاں، میں نے قہوہ پیا، میں نے غزلیں کہیں

ذکر کیسے کریں وصل کی رات کا، کیسے بتلائیں حال اس ملاقات کا

گولیاں کھا کے بستر پہ وہ سو گئی، اس کو سردرد تھا، میں نے غزلیں کہیں

اس سے الفت تو تھی ، پر وہ پڑھتی رہی، پھر ولایت گئی، ڈھونڈ لی نوکری

میں نے ایم اے کیا، لیکچرر لگ گیا، اس کے لڑکا ہوا، میں نے غزلیں کہیں