ہمارے دکھ بھرے شب وروز!

روزگار کی تلاش میں انسانی اسمگلرز کے ہتھے چڑھنے والے میرے خوبصورت پاکستانیوں سے مختلف ادوار میں جو سلوک کیا گیا،اس کی ایک اور بھیانک مثال یونان میں ڈوبنے والی کشتی کی ہے جس میں بیسیوں پاکستانی جاں بحق ہو گئے ہیں، میں اس روزسے چین سے سو نہیں سکا، دنیا بھر کے اخبارات میں اس حوالے سے بہت کچھ بتایا گیا ہے کہ اس کشتی میں پاکستان کے علاوہ دوسرے ممالک کے لوگ بھی شامل تھے اور ہماری بدقسمتی کہ زیادہ تر کا تعلق مسلم ممالک سے تھا۔ یورپ میں قسمت آزمائی کرنے والے پاکستانیوں نے 35سے پچاس لاکھ روپے تک ان اسمگلروں کو ادا کئے تھے اور یہ وہ بیعانہ تھا جو ان سے سفر آخرت کیلئے پیشگی وصول کر لیا گیا تھا۔

اس سانحہ کے مختلف پہلوئوں پر بہت سے دوست اظہار خیال کر چکے ہیں ،میں ان سب سے اتفاق کرتا ہوں مگر کچھ پہلو ابھی تک تشنہ ہیں میرے خیال میں ان نوجوانوں کے یورپ میں مقیم دوست احباب اور عزیز واقارب جب کبھی پاکستان آتے ہیں ان کے ٹھاٹھ باٹھ دیکھ کر دلوں میں ان کی پیروی کی خواہش پیدا ہوتی ہے جبکہ انہوں نے اپنی اس کامیابی کے صرف روشن پہلو بیان کئے ہوتے ہیں جبکہ اس کے بہت سے تاریک پہلو بھی ہیں۔انہیں زندگی اور موت کے اس سفر میں جو ’’حادثے‘‘ پیش آئے ہوتے ہیں عموماً ان کا بیان بہت کم ہوتا ہے جو لوگ لاکھوں روپے صرف کرکے وہاں پہنچ بھی جاتے ہیں بہت عرصے تک وہاں کی امیگریشن کے خوف سے تقریباً قید میں ہوتے ہیں کہ ان ممالک تک ان کی دسترس غیر قانونی ہوتی ہے ۔ بہت تگ ودو کے بعد انہیں اگر کہیں جاب ملتی بھی ہے تو ان کا مالک دن رات ان سے کام لیتا ہے اور دکان سے باہر جانے کی اجازت نہیں دیتا،اگر اس دوران یہ کبھی باہر نکلیں بھی تو چوروں کی طرح چھپ چھپا کر نکلتے ہیں اور یہ سلسلہ بہت طویل ہوتاہے۔انہیں وہاں قانونی قیام کی اجازت ملنے میں دس بارہ سال بھی لگ جاتے ہیں اور اس عرصے میں وہ پاکستان نہیں جا سکتے ۔چنانچہ بعض اوقات انہیں شدید صدمات سے بھی گزرنا پڑتا ہے ان کے قریب ترین عزیز واقارب میں سے کوئی فوت ہو جاتا ہے اور وہ اپنے قبروں جیسے رہائشی کمروں میں چھپ چھپ کر آہیں بھرتے اور آنسو بہاتے ہیں اور خصوصاً ان میں سے جو شادی شدہ ہیں اس جدائی کے عرصے میں والد کی رہنمائی اور قربت کی توانائی سے محرومی انہیں غلط صحبت کے علاوہ نفسیاتی مسائل کا شکار بھی بنا دیتی ہے۔کچھ ایسے کیس بھی سامنے آئے ہیں کہ اس دوران بیوی بھی ساتھ چھوڑ دیتی ہے یا کچھ اور طرح کے مسائل پیدا ہو جاتے ہیں چنانچہ جب انہیں واپس پاکستان آنے کا موقع ملتا ہے تو ان کے سہانے خواب ایک ڈرائونے خواب کی شکل اختیار کرچکے ہوتے ہیں گو اس کی مثالیں کم ہیں مگر اس طرح کی ایک مثال بھی اپنے طور پر جان لیوا ہے۔

یہ تو ہم سب جانتے ہیں کہ ہزار خطرات مول لیکر یہ ایڈونچر کرنے والے نوجوان اپنی بہنوں، بیٹیوں اور والدین نیز اپنی بہت سی ذاتی خواہشات کی تکمیل کیلئے یہ سفر اختیار کرتے ہیں مگر ان میں سے جو کامیاب بھی ہو جاتے ہیں وہ مطلوبہ خوشحالی کے اور خواہشات کی تکمیل کے بعد خود ٹوٹ پھوٹ جاتے ہیں، میں بیرون ملک اپنے دوستوں سے ملا ہوں، جو دوسروں کی نسبت زیادہ حساس ہیں انہیں اپنا یہ سارا سفر رائیگاں محسوس ہوتا ہے تاہم ان کی تعداد بہت کم ہے۔ اس حوالے سے مجھے ایک بات سمجھنے میں خاصی دشواری پیش آئی ہے کہ اگر کسی کے پاس تیس چالیس لاکھ ایجنٹوں کو دینے کیلئے ہیں تو وہ اپنے ملک میں اپنے پیاروں کے درمیان رہتے ہوئے چھوٹا موٹا کاروبار کیوں نہیں کر سکتا؟میں نے اس ملک میں ہزاروں لاکھوں لوگوں کو بہت معمولی انویسٹمنٹ سے ترقی کی بلندیوں تک پہنچتے دیکھا ہے اور حق حلال کی کمائی سے اپنی اور اپنے خاندان کی خواہشات کی تکمیل کی ہے، مگر ہمیں بیرون ملک مقیم عزیزوں اور رشتہ داروں کی کامیابیوں پر رشک آتا ہے جبکہ ہمارے اپنے درمیان ایسے لوگ موجود ہیں جن کے نقش قدم پر ہم لوگ چل کر وہ سب کچھ حاصل کر سکتے ہیں جو باہر کے خواب دیکھنے کے دوران ہمیں دکھائی دیتا ہے بس اس میں مسئلہ یہ ہے کہ ہم اپنے ملک میں کوئی چھوٹا موٹا کام کریں تو ہماری ناک کٹ جاتی ہے جبکہ باہر جاکر آغاز میں ہم گھٹیا سے گھٹیا جاب حاصل کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے یہ قصور ہمارے معاشرتی رویوں کا ہے ۔معاشرے نے انسانوں کو طبقات میں بانٹ دیا ہے اور یہ طبقاتی تقسیم دیگر سانحات کے علاوہ یونانی ساحل والے کبھی نہ بھولنے والے المیوں کو جنم دیتی ہے۔اب ہر طرف ان انسانی اسمگلروں کے خلاف آوازیں سنائی دے رہی ہیں مگر میری بات نوٹ کرلیں قاتلوں کو ان کے کئے کی وہ سزا کبھی نہیں ملے گی جو انہیں ملنی چاہئے، پہلے یہ پولیس سے اور پھر ایف آئی اے سے مک مکا کر کے معمولی سی سزا بھگت کر دوبارہ یہی کام شروع کر دیں گے۔یہ بے پناہ غربت اور بے پناہ امارت کے درمیان جنگ ہے اور اس کا فیصلہ ابھی نہیں ہونا مگر ان شااللّٰہ ایک روز ضرور ہو گا ۔ اس حوالے سے میرے چند اشعار آپ سن لیں میں نے بھی صرف اپنے دل کی بھڑاس نکالی ہے آپ بھی اپنا دل ہلکا کرلیں ۔

بلا کے صبح کو خوش رنگیاں سنائی گئیں

ہوئی جو شام تو ویرانیاں دکھائی گئیں

میں جانتا ہوں کہ اس ایک شخص کی خاطر

کہاں کہاں سے یہ آسانیاں ہیں لائی گئیں

مجھے تو یاد نہیں شکل اپنے منصف کی

مجھے تو یاد سزائیں ہیں جو سنائی گئیں

ہمارے بچوں کا پرسان حال کوئی نہ تھا

ہماری یاد میں شمعیں بہت جلائی گئیں

پڑا جو کام تو پائوں میں آکے بیٹھ گئے

پھر اس کے بعد تو آنکھیں نہیں ملائی گئیں

بنائی کشتیاں کاغذ کی شاہزادوں نے

ہمارے واسطے طغیانیوں میں لائی گئیں

ہماری دنیا کو دوزخ بنا دیا اور پھر

زمین پہ اپنے لئے جنتیں بسائی گئیں

خدا کے نام پہ ہم نے بسائی جو بستی

خدا کے نام پہ واں بستیاں جلائی گئیں

حقیقتوں کو چھپانے کی کاوشوں میں عطاء

کہانیاں ہمیں کیا کیا نہیں سنائی گئیں