لوگ پریشان ہیں صاحب جی!

آئی ایم ایف سے معاہدے کے نتیجے میں مہنگائی کا جو طوفان آیا ہے اس نے لوگوں کی چیخیں نکلوا دی ہیں۔اس سے پہلے بھی مہنگائی ہوتی رہی ہے مگر اس بار کی مہنگائی ایسی ہے کہ غربت کی لیکر سے نیچے کی زندگی گزارنے والے تو ’’مرے کو مارے شاہ مدار‘‘کی مجسمہ تصویر بنے ہوئے ہیں ،لوئر مڈل کلاس کے لوگ بھی اس صورتحال سے شدید پریشان ہیں یہ لوئر مڈل کلاس وہی ہے جسے کبھی مڈل کلاس کہا جاتا تھا انہیں ’’لوئر‘‘ اس لئے کہنا پڑا کہ آج کی مڈل کلاس تو کروڑوں میں کھیلتی ہے۔بہرحال آپ کہیں بھی چلے جائیں عوام آپ کو سخت پریشان نظر آئیں گے۔ مہنگائی کی ذمہ داری توتیرہ جماعتوں پر مشتمل پی ڈی ایم پر عائد ہوتی ہے مگر عام لوگ اس کی ذمہ داری صرف پی ایم ایل این ہی پر ڈال رہے ہیں اور یوں تمام جماعتوں کی مشاورت سے کئے گئے معاہدے اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بھیانک مہنگائی کا بوجھ اکیلی پی ایم ایل این کو اٹھانا پڑ رہا ہے ۔

بجلی کی قیمتوں اور اب پٹرول کی قیمتوں میں کمر توڑ اضافے نے عوام کی چیخیں نکلوا دی ہیں، او پر سے وہ تمام اشیائے خوردنی جو روز مرہ استعمال کے لئے ہیں وہ بھی عوام کی دسترس سے باہر ہو چکی ہیں۔کم آمدنی کے حامل لوگوں کے لئے زندگی دشوار ہو گئی ہے۔ عوام کو یہ شکایت ہے اور شکایت بجا ہے کہ ایک تو صنعت کاروں اور تاجروں سے اربوں کروڑوں کی آمدنی پر جو ٹیکس وصول کیا جاتا ہے یا یوں کہہ لیں کہ وہ اس سے زیادہ ٹیکس دینے کے لئے تیار ہی نہیں وہ اونٹ کے منہ میں زیرے سے بھی کم ہے اور اس کے مقابلے میں ملازمت پیشہ پاکستانیوں کی تنخواہ سے جو ٹیکس کاٹا جاتا ہے وہ ان دیو قامت بزنس مینوں کے (برائے نام)ٹیکس سے کہیں زیادہ ہے، گویا عوام کا ہر دور میں قربانی دینا اس دور میں بھی لازمی ہو گیا ہے، بکروں کی قربانی تو سال میں صرف ایک دفعہ ہوتی ہے جبکہ یہ عوامی بکرے مسلسل چھری تلے نظر آتے ہیں۔عوام کو قربانی کی تلقین کرنے والوں نے اپنی سہولتوں میں جو بے پایاں اضافہ کیا ہے وہ چیئرمین سینٹ (موجودہ اور سابقہ ادوار) کو دی گئی مراعات کی صورت میں نظر آتا ہے۔ بیوروکریسی کے اخراجات اور قومی اور صوبائی اسمبلی کے ارکان کی دلجوئیاں اس کے علاوہ ہیں نیز عوام پر سارا بوجھ ڈالنے والے عمائدین حکومت نے اپنے اخراجات کم نہیں کئے۔وزراء،معاونِ خصوصی کی ایک فوج ہے جو نظر آتی ہے اور یوں عوام کو اپنی کسمپرسی زیادہ شدت سے محسوس ہونے لگتی ہے ۔

اگر ہم نے غربت کے مناظر دیکھنے ہیں تو دن بدن روز افزوں جھونپڑیاں دیکھ لیں جو دھوپ میں محفوظ ہیں اور نہ بارشوں میں ،ان میں نہانے تو کیا دھونے کی سہولت بھی موجود نہیں ۔یہ لوگ گرمی کی شدت سے جب گھبرا جاتے ہیں تو باہر فٹ پاتھ پر اپنا ڈیرہ جما لیتے ہیں۔میں نے یہ مناظر کسی زمانے میں انڈیا کے بڑے شہروں میں دیکھے تھے اور اب یہ مناظر پاکستان میں بھی دیکھنے پڑ رہے ہیں۔ان جھونپڑیوں میں رہنے والے مرد اور عورتیں کسی بھٹے پر کام کرتے ہیں اور روکھی سوکھی کھاتے ہیں۔ انہوں نے گندے کپڑے دھونے ہوں تو نہر کے زیادہ گندے پانی میں دھونے پر مجبور ہیں۔یہ پریشان حال لوگ صرف جھونپڑیوں میں نہیں رہتے یہ ایک دو کمروں والے کرائے کے گھروں کے بھی مکین ہیں انہیں اپنی معمولی تنخواہ میں سے مکان، بجلی، گیس کا بل بھی ادا کرنا ہوتا ہے۔اور دال، آٹا،سبزی،آئل بھی خریدنا پڑتا ہے اور آپ یقین کریں بظاہر خاصے بہترنظر آنے والے لوگ بھی جب گروسری کی خریداری کے لئے گھر سےنکلتے ہیں تو قیمتیں سن کر انہیں بھی پسینہ آ جاتا ہے، یہ وہ سفید پوش ہیں جنہوں نے اپنی سفید پوشی کا بھرم ہر صورت میں رکھنا ہوتا ہے اور یوں یہ طبقہ ان دنوں سخت پریشان ہے۔

دوسری طرف سڑکوں پر قیمتی گاڑیاں دوڑتی نظر آتی ہیں،شاپنگ مال میں کھوے سے کھوا چھل رہا ہوتا ہے اور لوگ ہزاروں کا بل سہولت سے ادا کر رہے ہوتے ہیں ۔ہائوسنگ سوسائٹیوں پر بھی ایک نظر ڈال لیں قطار اندر قطار محل نما کوٹھیاں ،کروڑوں روپوں سے آراستہ کئے گئے عشرت کدے اور فارم ہائوسسز دیکھ کر دل نہیں مانتا کہ یہاں کروڑوں کی تعداد میں لوگ نان شبینہ کے لئے بھی ترستے ہیں۔ دوسری طرف پی آئی اے سمیت ہمارے کئی ادارے تباہ وبرباد ہو چکے ہیں اور ہاں ابھی تک میں نے جتنی باتیں کی ہیں یہ آج کی نہیں برس ہا برس پہلے سے بوئی ہوئی فصل ہم آج کاٹ رہے ہیں۔اس کے علاوہ ایک اہم بات یہ کہ مہنگائی کا عفریت اپنی جگہ مگر بے جا مہنگائی کی وجہ یہ ہےکہ مہنگائی کو کنٹرول کرنے والی مشین بالکل ناکارہ ہو چکی ہے اور ان گراں فروشوں کو لگام دینے والا کوئی نہیں یہ جب چاہتے ہیں بغیر کسی وجہ کے بھی قیمتیں اوپر سے اوپر لے جانے میں لگے رہتے ہیں، اگر ان بڑے بڑے لٹیروں کو پٹہ ڈال دیا جائے تو عوام کی مشکلات میں کمی آ سکتی ہے۔

میں یہ سب باتیں بہت دکھ سے لکھ رہا ہوں اگر صورتحال یہی رہی تو مجھے مستقبل کا بہت ڈرائونا نقشہ نظر آ رہا ہے، ڈکیتی کی وارداتوں میں اضافہ ہو گا اور اس کے علاوہ جو کچھ ہو گا اس کی تفصیل لکھتے ہوئے قلم کانپنے لگتا ہے۔ بس آپ ان اقوام کی تاریخ پڑھ لیں جب ظلم سہتے سہتے عوام ایک دن جاگ جاتے ہیں اور پھر چین کی نیند سونے والوں کی نیندیں حرام کر دیتے ہیں۔

آخر میں اس حوالے سے میری ایک غزل کے چند اشعار

جان ہماری کب چھوڑے گی اندھی بہری رات

گھر سے باہر دن نکلا تو اندر جاگی رات

صبح ہوئی تو آنکھیں ایسے نیند سے بوجھل تھیں

جیسے کوئی جاگ رہا تھا مجھ میں ساری رات

صبح کی آہٹ سن کر اپنے گھروں سے نکلے لوگ

آنکھیں اندھی ہو کر رہ گئیں باہر اتنی رات

اپنے گھروں میں چین کی نیندیں سوتے ہیں کچھ لوگ

جاگنے والو! ان کے منہ پر مارو ان کی رات

کون دھرے گا عطا تمہاری ان باتوں پر کان

اپنا اپنا دن ہے سب کا اپنی اپنی رات