اچانک رمضان!

آج صبح سے رمضان مبارک کے جو پیغامات آرہے ہیں وہ زیادہ تر ان الفاظ پر مشتمل ہیں ’’اچانک رمضان مبارک۔‘‘ اس کی وجہ یہ ہے کہ جو اللہ کے نیک بندے ہیں وہ اس انتظار میں تھے کہ چاند نظر آنے کی کوئی خبر آئے تو وہ تراویح کے نوافل ادا کرنے کے لئے گھروں سے نکلیں اور جو گنہگار تھے وہ سوچتے تھے اگر چاند نظر آ گیا تو ان کا کیا بنے گا؟بس اس کشمکش میں لوگ ٹی وی پر رویت ہلال کمیٹی کے علما کے نورانی چہرے دیکھتے رہے۔ پہلے یہ ٹکر چلتے رہے کہ زونل کمیٹیوں کے مطابق کسی صوبے میں چاند نظر نہیں آیا جس پر تراویح پڑھنے کے خواہش مند لمبی تان کر سو گئے کہ صبح انہوں نے فجر کی نماز کے لئے بھی اٹھنا تھا پھر یوں ہوا کہ رات کے ساڑھے دس بجے کے قریب رویت ہلال کمیٹی نے ’’اچانک رمضان مبارک‘‘ کا اعلان کر دیا، انہیں چولستان سے کسی ’’دور بین شخص ‘‘ کی گواہی موصول ہو گئی کہ اس نے بہ قائمی ہوش وحواس اپنی گنہگار آنکھوں سے چاند دیکھا ہے سو کل پہلا روزہ ہوگا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ چولستان انڈیا کے ساتھ ہے وہاں چاند کہیں نظر نہیں آیا مگر ہمارے چولستان کے دیدہ ور کو نظر آگیا۔

یہ نصیب اللّٰہ اکبر لوٹنے کی جائے ہے

اس اچانک رمضان سے ثابت ہوا کہ سائنس ایک بیہودہ اور ناقابلِ اعتماد چیز ہے جس پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا چنانچہ رویت ہلال کے ارکان کو چاند نظر نہ آیا۔ رویت سے وابستہ سائنٹیفک آلات نے چاند کی گواہی نہیں دی ،دور بین سے بھی چاند دکھائی نہ دیا اگر کسی کو دکھائی دیا تو وہ چولستان کا کوئی نامعلوم مگر ہونہار شخص تھا جس نے اپنی ننگی آنکھوں سے چاند دیکھا اور تمام مکاتب فکر کے علما نے اس کی گواہی کو قبول کیا۔ اچھی بات ہے مگر آئندہ یہ دور بین چھتوں پر کھڑے ہونا اور پور ی قوم کو سسپنس میں مبتلا کرنے کا ڈرامہ ختم کرنا چاہئے خواہ مخواہ کروڑوں روپے خرچ کئے جا رہے ہیں۔ ہم جب وزیر آباد میں رہتے تھے تومجھے یاد ہے ان دنوں وزیر آباد کی ہر چھت پر بڑے چھوٹے، عورتیں اور مرد آسمان پر چاند تلاش کیاکرتے تھے۔ ہم لوگ رمضان اور عید کا چاند اپنی آنکھوں سے دیکھتےتھے اور روزہ رکھتے تھے اور عید مناتے تھے ۔چاند نظر آنے پر قریبی مساجد سے اعلان بھی ہوتے اور ’’نوبت‘‘ بھی بجائی جاتی۔ ہم بچوں کےلئے عید کا چاند زیادہ ’’اہمیت‘‘ کا حامل ہوتا تھا یہ نظر آتے ہی سب لوگوں سے گلے ملتے اور رات کو اپنے مٹی کے کھلونے اپنے ساتھ سلاتے بہرحال کافی برسوں کے بعد پاکستان اور سعودی عرب کا رمضان ایک ساتھ شروع ہوا ہے۔ انشا اللّٰہ یہ ’’حسن اتفاق‘‘ پاکستان کے لئے بہت سی ’’برکات‘‘ کا باعث بنے گا۔ اللّٰہ کرے اب عید کے چاند کے لئے بھی کوئی چولستانی مرد صحرا سائے آئے اور یوں ایک دن پہلے عید کے چاند کی گواہی سے گنہگاروں کی ’’دلجوئی ‘‘ بھی ہو سکے!

ویسے حالات جیسے بھی ہوں ہماری قوم کی زندہ دلی میں کوئی کمی نہیں آتی اب رویت ہلال ہی کی لیجئے ستم ظریفوں نے یہ بے پرکی اڑائی ہے کہ ایک شخص کلاشنکوف لیکر مولانا کے پاس گیا اور کہا، میں نے چاند دیکھا ہے اب میری شہاد ت قبول کرو یا اپنی شہادت کے لئے تیار ہو جائو۔ ظاہر ہے یہ من گھڑت ہے اگر من گھڑت نہ ہوتاتو اس طریق کار کےتحت اپنی مرضی کے عدالتی فیصلے لئے جا سکتے تھے مرضی کا بجٹ بنوایا جا سکتا تھا ، من مرضی کی شادی کی جا سکتی تھی غرضیکہ کوئی آئینی، عدالتی، عائلی رکاوٹ درمیان میں نہیں آ سکتی تھی، چاند نظر آنے کے حوالے ہی سے ایک ستم ظریف دور کی کوڑی لایا ہے بلکہ اس دینی معاملے میں بھی یہ کہتے ہوئے خواہ مخواہ سیاست درمیان میں لے آیا ہے کہ زمان پارک میں آج کل زیادہ تر چاند رات کو ہی نکلتے اور رات کو ہی چڑھتے ہیں ۔اس طرح ایک صاحب نےسحری کے وقت لوگوں کو جگانے کےلئے جو ڈھول والے ہوتے ہیں، اس سے بھی ایک نکتہ نکالا ہے اور وہ یہ کہ جگانا سحری کے لئے ہوتا ہے مگر یہ ڈھول والے شادی کے جذبات جگا کر چلے جاتے ہیں۔

خیر یہ باتیں تو ہوتی رہتی ہیں اس کا ایک اور پہلو بھی ملاحظہ فرمائیں ،میں آج افطاری کے لئے پھل وغیرہ خریدنے گھر سے نکلا تو قیمتیں سن کر گھر واپسی کا رستہ بھولتا نظر آیا، کیا آپ یقین کریں گے کہ کسی زمانے میں تربوز کا ٹرک کسی سڑک پر کھڑا ہوتا تھا اور خریدار کو تولے بغیر اس کی مناسب ہی قیمت بتائی جاتی اور لوگ افطاری کے وقت اس ٹھنڈے اور میٹھے پھل کا مزا لیتے آج میں نے ایک تربوز پر ہاتھ رکھا تو قیمت سن کر سینے پر ہاتھ رکھ لیا کہ یہ نو سو روپے کا تھا انار کی ایک قسم ہوتی ہے جسے ’’بدانا‘‘ کہتے ہیں میں نے دکاندار سے کہا دو کلو تول دو اس نے تولا اور بولا تین ہزار روپے عنایت کر دیں کیلے بلکہ ننھے منھے تھے کیلوں کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں فروٹر اور کنو بھی ہاتھ نہیں لگانے دیتے اب اگر کسی نے افطاری کرنی ہے تو وہ ٹھنڈے پانی سے پیاس بجھائے گا اور چھان بورے میں لت پت آٹے کی روٹی کھائے گا۔پھلوں میں سے تو اب بیر اور گنڈیریاں بھی ہاتھ نہیں لگانے دیتے چنانچہ غریب ہی نہیں قدرے خوشحال پاکستانی بھی صرف یہ سوچ کر افطاری کیا کریں گے کہ وہ انار کھا رہے ہیں، تربوز نوش جاں فرما رہے ہیں اور کھٹے میٹھے کنوئوں سے اپنی افطاری بہلا رہے ہیں۔ اب آخر میں میری ایک نعت ملاحظہ فرمائیں۔

ہے مرا چارہ گر مدینے میں

منزل و راہبر مدینے میں

سارے رستے حضورؐ کے گھر کے

ہوگئے ہم سفر مدینے میں

کتنی صدیوں پہ ہو گئے ہیں محیط

میرے شام و سحر مدینے میں

کتنی صبحیں ظہور کرتا ہے

جاگنا رات بھر مدینے میں

تو نے کچھ بھی تو دیکھنے نہ دیا

اے مری چشم تر مدینے میں

کیسے کعبے سے ہو کے لوٹ آئوں؟

میرا رختِ سفر مدینے میں

یاد فرمائیے مرے مولا

مجھ کو بار دگر مدینے میں

کتنے ہوتے ہیں خوش نصیب عطا

جن کے ہوتے ہیں گھر مدینے میں