ایک شیخ صاحب کی آپ بیتی

مجھ سےکئی لوگ پوچھتے ہیں کہ آپ کا نام شیخ ظاہر شاہ ہے۔ آپ بیک وقت شیخ اور شاہ کیسے ہوگئے؟ میں انہیں ہمیشہ اس کا گول مول جواب دیتا ہوں۔ بس اتنا ہے کہ جو لوگ جانتے ہیں کہ میں اسراف اور فضول خرچی کو اسلام کے منافی سمجھ کر بے جا دولت لٹانے سے گریز کرتا ہوں، وہ مجھے شیخ صاحب کہتے ہیں اور جو لوگ میرے دینی کردار سے واقف ہیں وہ مجھے شاہ صاحب کہہ کر پکارتے ہیں اورمیرے شیخ ہونے کووہ عربی والا شیخ سمجھتے ہیں جبکہ حقیقت میں آج بتانے جارہاہوں۔میں نہ شیخ ہوں او ر نہ شاہ۔کاروباری حلقو ں میں شیخوں، خصوصاً چنیوٹ کے شیخوں کی بہت ساکھ ہے۔ چنانچہ جب میں نےکاروبارمیں قدم رکھاتو اپنے نام کے ساتھ شیخ لکھنا شروع کردیا۔ اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہوا کہ جب میں کاروبار کے سلسلے میں دبئی جاتاہوں تو وہاں لوگ مجھے ’’یاشیخ‘‘ کہتے ہیں۔ باقی رہا ’’شاہ‘‘ کہلانے کا مسئلہ تو آپ لوگوں نے برنارڈ شا کا نام تو سنا ہوگا، اگرایک عیسائی ’’شا‘‘ ہوسکتا ہے تو میں بحمد اللّٰہ مسلمان ہوں۔ ویسے اس کا پس منظر یہ بھی ہے کہ کچھ بدبخت میری سیاہ رنگت کا ذکر کرتے ہوئے مجھے’’کالا شا‘‘قرار دیتے تھے، پھر انہوں نے مجھے زِچ کرنے کے لیے طنزیہ طور پر ’’شا‘‘ بنا دیا جب یار لوگوں نے مجھے ’’شاہ صاحب‘‘ کہنا شروع کیاتو میں نےبھی اپنے نام کے ساتھ ’’شاہ‘‘ کااضافہ کرلیا۔

میں آج یہ ساری تفصیل اس لیے بتا رہا ہوں کہ میرے نزدیک عبادات اور معاملات دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ ہمارے علما زیادہ زورعبادات پر دیتے ہیں چنانچہ آج تک بھی کسی مسجد یا دینی مدرسے کے مہتمم نےمیرے عطیات وصول کرتے ہوئے یہ تحقیق نہیں کی کہ یہ رقم حلال یا حرام ذرائع سےکمائی گئی ہے کیوں کہ وہ یہ جانتے ہیں میں نمازی، پرہیزگار آدمی ہوں اور حلال حرام کاخیال رکھتاہوں۔ آپ لوگوں کو بھی میری نصیحت ہے کہ جب کبھی یورپ وغیرہ جائو تو ہمیشہ حلال حرام کا خیال رکھو، حلال فوڈوالے ریستوران سے کھاناکھائو۔ اگر حلال فوڈ نہ مل سکے تو سبزیوں پرگزارہ کرو۔ٹوتھ پیسٹ وغیرہ استعمال کرنے کی بجائے نیم یا کیکر کی مسواک کی عادت ڈالو، ایک تو یہ سستی ہوتی ہے اور دوسرے علما نے مسواک کے بہت فضائل بیان فرمائے ہیں۔

میں دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ پے منٹ کبھی وقت پہ نہ کریں۔ جب کوئی پے منٹ لینے آئے تو قسم کھا کر کہہ دو کہ تمہارےپاس ایک پیسہ بھی نہیں ہے۔ اگروہ تمہاری تلاشی لیناچاہے تو اسے اس بدگمانی کی شرم دلائیں۔ جب وہ دس بارہ چکر لگالے تو پھر پے منٹ کردیا کریں۔ یہ چکر لگوانا بہت ضروری ہیں۔ ایک تو اس لیے کہ یہ کاروباری اصول ہے۔ دوسرے اس لیے کہ جو چیز مشکل سے ملے اس کی قدر ہوتی ہے چنانچہ پے منٹ وصول کرنے والابہت خوش ہوگا۔ ممکن ہے وہ خوشی سے بے ہوش ہو جائے۔ اس صورت میں اس کے منہ پر پانی کے چھینٹے ماریں، اگر منرل واٹر ہو تو وہ ضائع نہ کریں۔ اس کی بجائے اپنی جوتی سونگھا کر اسےہوش میں لانے کی کوشش کریں۔ اسے چکر لگوانے کا تیسرافائدہ یہ ہے کہ آپ کی مالی حالت کے بارے میں وہ سمجھے گا کہ خاصی کمزور ہے اور اس کاچوتھا فائدہ یہ ہوگاکہ وہ کبھی ادھار نہیں مانگے گا۔میں نےمحسوس کیا ہے کہ میرے کچھ دوستوں کو غریبوں کی فکر زیادہ رہتی ہے۔ مزدوروں کے حقوق کی بات بہت زیادہ کرتے ہیں، استحصال کے خلاف بولتے رہتے ہیں ، ذخیرہ اندوزی، اسمگلنگ، منافع خوری، ملاوٹ، بے ایمانی، کرپشن، رشوت دینا اور لینا، وعدہ خلافی اور جھوٹ وغیرہ کے خلاف ہیں۔ لیکن یہ شدت نماز روزے میں نظر نہیں آتی۔ مسجد جاتے ہیں تو کسی کو آمد کاپتہ ہی نہیں چلتا۔روزہ رکھتے ہیں تو بغیر کسی کو کچھ جتائے اپنے سارے کام معمول کے مطابق کرتے ہیں۔ عبادات کااعلان کرنا بہت ضروری ہوتا ہے۔ اس سے نیکی کو فروغ ملتاہے۔ مسجد جائو تو اندر داخل ہوتے ہی زور سے کھنگورا مارو۔ اس سے ایک تو گلا صاف ہوتاہے اور دوسرے لوگوں کو پتہ چلتا ہے کہ کوئی مردِ مومن مسجد میں داخل ہوا ہے۔ اگر ہو سکے تو ببن میاں عطرفروش سے عطر کی ایک سستی سی خوشبو خریدکر ساتھ لے جایاکریں اور ایک ایک نمازی کے پاس جا کر اس سے سلام دعاکے بعد اس کے کپڑوں پر یہ عطر لگائیں۔ کچھ ناسمجھ لوگ اس سے روکیں گے اور کہیں گےکہ اس عطر کا نشان دھونے سے بھی نہیں جاتا مگر آپ انہیں کہیں کہ تمہیں اپنے کپڑوں کی پرواہے میرے خلوص کی نہیں؟ اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ جس نمازی کو جب بھی اپنے کپڑوں پر عطر کا داغ نظر آئے گا اسے آپ کا مسجد میں باقاعدگی سے آنا یاد آجائے گاچنانچہ ایسا نیک اطوار شخص کسی بھی جرم میں اگر پکڑا جائے تو لوگ گواہی دیں گےکہ یہ نیک آدمی ہے۔ نماز روزے کاپابند ہے۔ ہمارا معاشرہ رزق ِحلال، امانت اور دیانت کو کسی کے نیک ہونے کی علامت نہیں سمجھتا بلکہ اس کے لیے اس کا صرف نمازی ہونا کافی ہے۔ اسی طرح جب روزہ رکھیں تو تھوڑی تھوڑی دیربعد کہیں ’’روزہ بہت لگ رہا ہے‘‘ ورنہ لوگ روزہ خور ہی سمجھیں گے۔ میرے عزیزدوستو! یہ باتیں دکھاوے کے زمرے میں نہیں آتیں بلکہ جیسا کہ میں نے شروع میں کہا کہ یہ نیکی کے فروغ کے لیے ہیں۔ میں ایک دفعہ الیکشن میں کھڑا ہوا تو میں نےاپنی تصویر کی جو بڑی بڑی ہورڈنگز بنوائی تھیں، وہ میں نے پینٹر کو واپس کردیں کیونکہ اس نے میرے ماتھے پر محراب کا نشان بس برائے نام سا بنایا تھا چنانچہ اس نے روپے کے سائز کا محراب کا نشان بنایاتو میں نے اس کی ادائیگی بھی اس کے کافی چکر لگوانےکے بعدکی۔ میرے حریف نے مشہور کر دیاکہ میرے ماتھے پہ محراب کاجو نشان ہے یہ نمازوں کی وجہ سے نہیں بلکہ سگریٹ بجھانے کی وجہ سے ہے لیکن اس کی یہ سازش ناکام ہوئی کیونکہ سب کو پتہ تھا میں سگریٹ نہیں پیتا۔ وما علینا الالبلاغ۔