دو طرح کے خواب

گزشتہ روز میں نے ایک عجیب و غریب خواب دیکھا، میری شادی ہو رہی تھی، میں گھوڑے پر بیٹھا تھا، میں نے سر پر دستار باندھ رکھی تھی۔ شیروانی اور پاجامے میں ملبوس تھا۔ میں ایک خوبرو جوان تھا، عمر یہی کوئی چوبیس پچیس سال کا۔ گھروں کے دریچوں سے لڑکیاں جھانک رہی ہیں۔ برات کے آگےآگے میرے ہم عمر دوست نوخیز اختر، اجمل شاہ دین، گوندل، مسعود علی خان، اکی، آفتاب، مالک،منیر احمد شاہ، طارق بخاری، احسان شاہد، قمر ریاض، عباس تابش، شاہد مکھی، جلیل عالی، طارق بلوچ، حامد میر، وجاہت مسعود، طلعت حسین، شعیب بن عزیز، آفاق خیالی، اصغر ندیم سید، جاوید اقبال کارٹونسٹ، شاہد صدیقی اور ایسے بہت سے میرے ہم عمر دوست جو عین عالم شباب میں نہایت اعلیٰ پوزیشنز پر فائز ہیں، بارات میں شامل تھے، تسنیم نورانی نے گھوڑے کی باگ تھام رکھی تھی۔ عزیر احمد کا بھنگڑا دیدنی تھا۔ اس کے پائوں کے نیچے کی زمین تھر تھر کانپ رہی تھی۔ اس دوران اچانک میری نظر اس پر پڑی تو میں نے دیکھا کہ وہ ایک اور بارات کے آ گے آگے اسی جوش و خروش سے بھنگڑا ڈال رہا تھا تاہم کچھ دیر بعد وہ دوبارہ میری نظروں کے عین سامنے اپنے بھنگڑے سے زمین کی مت مارنے میں مشغول ہوگیا۔

اس دوران بہت سے دوست پیسے بھی لٹا رہے تھے جن پر بچے جھپٹ پڑتے، مگر اچانک میں نے دیکھا کہ احسان شاہد نے جیب سے پائونڈز اور قمر ریاض نے عمانی ریال کی تھدی نکالی اور بچوں پر نوٹ پھینکنا شروع کردیئے۔ یہ دیکھ کر میں نے گھوڑے سے اترنے کی کوشش کی مگر تسنیم نورانی نے مجھے ڈانٹ کے واپس گھوڑے پر بٹھا دیا۔ کراچی آرٹس کونسل کے احمد شاہ، اچانک باراتیوں کی صف سے نکل گئے۔ اصغر ندیم سید نے میرے قریب آ کر بتایا کہ وہ دنیا کے چار ملکوں میں ادبی کانفرنسوں کا انعقاد کر رہے ہیں وہ مجھ سے کہہ کر گئے ہیں کہ عطاء سے معذرت کرنا، انہیں ان کانفرنسوں کے لئے ایک میٹنگ میں جانا ہے۔ شاہ صاحب ابھی بمشکل ستائیس برس کے ہوئے ہیں۔ اسی اثنا میںبرات لڑکی والوں کے گھر پہنچ گئی، دلہن کے والد اور بھائی نےباراتیوں کو خوش آمدید کہا اور اندر لے گئے جہاں پانچ سات سو لوگ موجود تھے، میرے اور میری دلہن کے لئے بہت خوبصورت اسٹیج تیار کیا گیا تھا، دلہن کی سہیلیوں نے دلہن کے علاوہ میرے ساتھ بھی ہلکی پھلکی چھیڑ چھاڑ شروع کر دی، ایک چلبلی سی لڑکی میرے پاس آئی اور کہا دولہا بھائی ہال میں خواتین کے علاوہ مرد حضرات بھی موجود ہیں آپ خواتین پر نظریں گاڑنے کی بجائے صرف دلہن کی طرف اپنی توجہ مرکوز رکھیں۔ اس پر میں نے پیار سے اس کے گال پر چٹکی بھری اور کہا ’’تم بہت شرارتی ہو، بھاگ جائو یہاں سے‘‘ مگر وہ وہیں کھڑی رہی اور مجھے دیکھ کر کوئی شرارتی جملہ کہہ کر ہنسنے لگی۔نکاح کی رسم پہلے سے ادا ہو چکی تھی چنانچہ ہمارا ایک دوسرے کے گھر آنا جانا شروع ہوگیا تھا، فون پر بھی بات ہو رہی تھی، ہم دونوں بہت خوش تھے اور ایک دوسرے سےچہلیں کر رہے تھے، سلامیوں کا سلسلہ بھی شروع ہو چکا تھا، مگر میں چاہتا تھا کہ اب یہ رسم جلدی سے ختم ہو، ہم اپنے ہوٹل جائیں ۔ سو یہ سلسلہ ختم ہوتے ہی اور باقی رسمیں پوری ہوتے ہی ہم اپنے ہوٹل کو روانہ ہوگئے۔ ابھی ہم کمرے میں داخل ہو ہی رہے تھے کہ ایک برات ہوٹل میں آئی اور پٹاخوں کے شور سے میری آنکھ کھل گئی۔ میں نے دیکھا کہ میں اپنے ہی بیڈ روم میں ہوں۔

بس اس کے بعد میں کئی روز تک پریشان رہا کہ مجھے یہ خواب کیوں آیا۔ میں تو پچاس سال سے اپنی بیوی کے ساتھ نہایت خوشگوار زندگی گزار رہا ہوں۔ اس دوران ایک دن کے لئے بھی میرے دل میں دوسری شادی کی خواہش پیدا نہیں ہوئی۔ جب میری پریشانی بڑھ گئی تو میں اپنے ایک دوست کے پاس گیا جو ماہر نفسیات تو نہیں مگر مختلف علوم پر دسترس رکھتا ہے،میں نے اس سے پوچھا جب کبھی میرے دل میں دوسری شادی کی خواہش ہی پیدا نہیں ہوئی تو یہ خواب کیوں آیا؟ اس نےکہا ’’مجھے علم ہے کہ تمہاری عمر بہت ہوگئی ہے اور اس عمر میں جو مسائل انسان کی زندگی میں آتے ہیں تمہیں بھی درپیش ہوں گے۔ اگر ان عمومی مسائل کے علاوہ کوئی اور ہو تو وہ بتائو‘‘۔ میں نے کہا میرے گھٹنے جواب دے گئے ہیں، میں وہیل چیئر پر آ گیا ہوں، جب میں اپنے پرانے ملنے والوں کے سامنے آتا ہوں جنہوں نے دو سال پہلے تک مجھے بھرپور زندگی گزارتے دیکھا ہے تو میں ان کی نظروں میں رحم کے جذبات دیکھتا ہوں جس سے میں سخت ڈائون ہو جاتا ہوں، میں اب تقریبات میں جانا چھوڑ چکا ہوں کہ وہاں سب میری وہیل چیئر دیکھیں گے مجھے وہیل چیئر سے اٹھا کر کرسی پر بٹھائیں گے۔ میں اس وقت مرنے والا ہو جاتا ہوں جب میری 76 سالہ بیوی مجھے سہارا دے کر بستر پر لٹاتی ہے یا واش روم تک لے کر جاتی ہے تو میں اندر سے ختم ہو جاتا ہوں۔

میں ابھی مزید بہت کچھ بتانے والا تھا کہ دوست نے میرے منہ پر ہاتھ رکھ دیا اور بولا مجھے مسئلے کی سمجھ آگئی ہے، میں جانتا ہوں تم نے ایک شاندار زندگی گزاری ہے، ساری دنیا تمہاری ادبی خدمات کی معترف ہے، تم پر کئی کتابیں لکھی جا چکی ہیں، تم جہاں کہیں بھی ہو لوگ تمہارے ساتھ تصویر اترواتے اور تم سے آٹو گراف مانگتے ہیں، لیکن تمہاری ان سب کامیابیوں پر تمہاری بے پناہ حساس طبیعت کی وجہ سے اپنی معذوری غالب آگئی ہے۔ مگر انسانی دماغ بہت چالاک ہوتا ہے وہ تمہیں خواب کی صورت میں اس دنیا میں لے جاتا ہے جو تم گزارنہیں اور نہ گزارنا چاہتے ہو۔ مگر خواب میں وہ سب کچھ کرتے ہو جو ایک صحت مند انسان کرتا ہے۔ تم نے جو خواب دیکھا وہ بہت خوبصورت تھا، مگر جاگے تو پھر اپنی موجودہ زندگی میں واپس آگئے۔ اس خواب نے تمہارا کتھارسز کردیا ہے، اب تم اپنی مجبوریوں کو جسے تم نے معذوری کا نام دیا ہے بھول جائو،تم آج بھی سات دنوں میں چار تخلیقی کالم لکھتے ہو، کتابوں پر فلیپ لکھتے ہو، تمہارے دوست کہتے ہیں کہ آج بھی تم جس محفل میںہوتے ہو اسے زعفران زاربنا دیتے ہو، مگر تم کہتے ہو میں معذور ہوگیا ہوں، شرم کرو،تمہاری بیوی، تمہارے بیٹے اور تمہارے دوست آج بھی جب تمہیں ملتے ہیں تو ان کے دلوں میں تمہارے لئے جذبہ ترحم پیدا نہیں ہوتا بلکہ ان کے خوبصورت ذہن آج بھی تم سے اتنی ہی محبت اور عزت کرتے ہیں اور کرتے رہیںگے۔ جب تک وہ تمہارے درمیان اور تم انکے درمیان زندہ ہو۔

یہ کہتے ہوئے میرے دوست نے بھرپور قہقہہ لگایا اور کہا تم بہت ناشکرے ہو، خواب میں اپنی شادی کے خوبصورت مناظر دیکھ لئے،مجھے دیکھ مجھے کسی ہجوم میں دہشت گردی، لوگوں کے قتل ہونے اور غربت سے خود کشی کرنے ایسے خواب ہی آتے ہیں۔ بولو میرے ساتھ خواب ایکسچینج کرنا چاہتے ہو؟