نیویارک کی کونسی کل سیدھی؟

بہت عرصہ پہلے کی بات ہے نیویارک کے ٹائم اسکوائر میں عزیر احمد کے ساتھ مٹرگشت کرتے ہوئے اچانک میری نظر ایک سائیکل رکشہ پر پڑی جسے ایک گورا امریکی کھینچ رہا تھا۔ میں نے سوچا کہ کھاتے پیتے لوگوں کا یہ کوئی نیا چونچلا ہے کیونکہ یہ سواری تو صحت اور انسانی وقار کے منافی قرار دے کر ہمارے بہاولپور اور بعض دوسرے علاقوں میں سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے ختم کردی تھی اور ان غریب لوگوں کو متبادل روزگار کے وسائل فراہم کئے تھے۔ یہ سواری اب بھارت یا بنگلہ دیش ایسے ملکوں ہی میں نظر آتی ہے جہاں نحیف و نزار غریب لوگ دو دو من کے مہاشوں اور سیٹھوں کا بوجھ کھینچ رہے ہوتے ہیں چنانچہ میں نے سوچا کہ دنیا کی واحد سپر پاور اور اس کے منتخب روزگار شہر نیو یارک میں سائیکل رکشہ محض شوقیہ ہی رکھا جاسکتا ہے مگر میرا یہ خیال غلط ثابت ہوا۔ میں نے دیکھا کہ ایک چھ فٹا گورا امریکی سائیکل رکشہ کو فٹ پاتھ کے قریب کھڑا کرکے گاہکوں کی تلاش میں اپنی نظریں ادھر ادھر گھما رہا ہے۔ اس کی نظر ہم پر پڑی تو اس نے کچھ اس طرح کا اشارہ کیا کہ بچپن میں ایک عمارت کی دیوار پر لکھا ہوا یہ شعر یاد آگیا؎

جاتے ہو کدھر کو کدھر کا خیال ہے

بیمار دانتوں کا یہی ہسپتال ہے

اسی دوران بارش شروع ہو چکی تھی اور فضا میں خنکی بڑھ گئی تھی، ہمارا ہوٹل ٹریول اِن نویں اور دسویں ایونیو کے درمیان 42 ویں اسٹریٹ پر واقع تھا یعنی ٹائم اسکوائر سے ہمیں تقریباً ڈھائی بلاک (ایک فرلانگ) اس بارش اور سردی میں پیدل چلنا تھا چنانچہ سوچا کہ اس گورے امریکی کی خدمت حاصل کی جائے تاکہ ایک تو نیو یارک میں سائیکل رکشہ کی سواری کا تجربہ کیا جائے اور دوسرے غریب امریکی کی سرپرستی بھی ہو سکے۔ عزیر احمد نے پوچھا کتنے پیسے لو گے۔ بولا دس ڈالر۔ یہ سراسر استحصالی دام تھے میںنے پانچ ڈالر کی پیشکش کی اور وہ چھ پر رضا مند ہوگیا۔ اس سائیکل رکشے میں بڑے اچھے طریقے سے سواریوں کو بارش سے بچانے کا انتظام کیا گیا تھا مگر جب سامنے سے ہوا کے تھپیڑے پڑنا شروع ہوئے اور گورے امریکی کو دو صحت مند پاکستانیوں کو کھینچنا پڑا تو اس کا سانس پھول گیا اور اس نے تھوڑی تھوڑی دیر بعد پوچھناشروع کردیا’’تمہارا ہوٹل اور کتنی دور ہے‘‘۔ تاہم منزل مقصود پر پہنچ کر ہم نے اس امریکی کو ٹپ دی ، اگرچہ ٹپ اس ٹپ کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں تھی جو امریکی بین الاقوامی خدمات کے عوض ہمیں اور ہمارے حکمرانوں کو دیتے ہیں۔

ٹائم اسکوائر میں ہم نے صرف سائیکل رکشہ ہی نہیں تانگہ بھی دیکھا بلکہ اسے یکہ کہنا چاہیے جسے ایک ’’یکے والی‘‘ حسینہ چلا رہی تھی بلکہ اس کی شکل بھی ہماری فلم ’’یکے والی‘‘ کی ہیروئن مسرت نذیر سے ملتی جلتی تھی۔ ماضی کی یہ قیامت خیز ہیروئن ان دنوں تھی بھی امریکہ میں، چنانچہ کوئی پتہ نہیں کہ یہ وہی ہو۔تفنن برطرف امریکہ میں مقیم ہمارے پاکستانی دوستوں کا کہنا ہے کہ یہ یکہ اور یہ سائیکل رکشہ محض ٹورسٹوں کا دل لبھانے کے لئے ہے۔ یکے کی حد تک تو ان کی بات ٹھیک ہے لیکن سائیکل رکشہ بھی اگر ٹورسٹوں کو اپنی طرف اٹریکٹ کرنے کے لئے ہے تو پھر ان رکشہ ڈرائیوروں کے اس قومی جذبے کی داد دینا چاہیے جو اپنی صحت اور انسانی وقار کے منافی یہ کام محض جذبہ حب الوطنی کے تحت کر رہے ہیں۔

امریکہ میں ہارلہ کے علاقے ہی میں نہیں پوش علاقوں میں بھی بہت سے غریب غربا سے ملاقاتیں ہوئیں ،یہ لوگ ٹریفک سگنل بندہونے پر آپ کی کار کی سکرین صاف کرنا شروع کردیتے ہیں اور اس کے عوض اگر آپ انہیں کچھ نہ دیں تو یہ آپ کو کچھ نہ کچھ ضرور دیتے ہیں اور یہ (کم سے کم) گالیاں ہوتی ہیں۔ ایک کالے امریکی کو میں نے دیکھا کہ مین ہٹن کےبس ٹرمینل کے پاس لگے ٹیلیفون بوتھ میں لوہے کی باریک تار داخل کرکے اس میں سے پیسے نکالنے کی کوشش کر رہا تھا، اس کے پاس سے سینکڑوں لوگ گزر رہے تھے مگر وہ ان سے بے نیاز اپنے کام میں مشغول تھا۔ کچھ غریب غربا رحم بھری اپیلوں کے بینر اٹھائے بھیک مانگ رہے تھے البتہ ان میں سے ایک گداگر مجھے بہت کھرا شخص لگا اس نے اپنے پاس لکھ کر لگایا ہوا تھا میں نے پیٹ بھر کر کھانا کھایا ہوا ہے چنانچہ میں بھوکا نہیں ہوں مگر مجھے پیسوں کی ضرورت ہے۔ میں نے ان سب گداگروں کی مدد کی اور سب کو کچھ نہ کچھ ضرور دیا کیونکہ یہ امریکی تھے اور میں پاکستانی تھا۔ فرق یہ تھا کہ یہ انفرادی گدا گر تھے ہم من حیث القوم گدا گر ہیں۔ چنانچہ یہ گدا گر جب ان گدا گروں کی ہتھیلی پر ایک کوارٹر رکھتا تھا تو ضمیر پر سے تھوڑا سا بوجھ ہلکا ہو جاتا تھا۔

پس نوشت:مریم اورنگ زیب وفاقی وزیر اطلاعات اور ان کی والدہ محترمہ طاہرہ اورنگ زیب کے بارے میں بہت عرصے سے ایک پوسٹ سوشل میڈیا پر پھیلائی جا رہی تھی گزشتہ روز مجھے بھی کسی نے فارورڈ کی۔ جس میں کہا گیا تھا کہ یہ بی بی سی کے کالم نگار وسعت اللہ خان کا کالم ہے میں چونکہ وسعت اللہ خان کے اسلوب سے واقف ہی نہیں اس کا معترف بھی ہوں چنانچہ میں نے خان صاحب کو فون کیا کہ اگرچہ مجھے یقین ہے کہ یہ تحریر آپ کی نہیں ہے کہ کوئی بھی مہذب انسان اس نوع کی دروغ گوئی نہیں کرسکتا پھر بھی اتمام حجت کے لئے آپ کو کال کی ہے اس پر انہوں نے بتایا کہ گزشتہ دو تین برسوں میں گاہے گاہے یہ پوسٹ سوشل میڈیا پر آ جاتی ہے اور مجھے ہربار احباب کے سامنے وضاحت کرنا پڑتی ہے۔ ان کی وضاحت کے بغیر بھی اس پوسٹ کا ایک ایک لفظ اپنے منہ سے بولتا ہے کہ یہ پوسٹ کسی گھٹیا شخص کے ذہن کی اختراع ہے۔ مریم اورنگ زیب نے احمد نواز سکھیرا کے ذریعے مجھ پر بھی بہت تہمتیں لگائی تھیں اسی طرح ان کے اور ان کی والدہ محترمہ کے خلاف یہ گندی مہم چلانے والے بھی اس روز کا انتظار کریں جو انصاف کا دن ہوگا۔